يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى الْقِتَالِ ۚ إِن يَكُن مِّنكُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ ۚ وَإِن يَكُن مِّنكُم مِّائَةٌ يَغْلِبُوا أَلْفًا مِّنَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَفْقَهُونَ
اے میرے نبی ! آپ مومنوں کو کافروں سے جنگ پر اکسائیے (55) اگر تمہارے بیس صبر کرنے والے ہوں گے تو دو سو پر غالب آجائیں گے، اور اگر تمہارے سو ہوں گے تو ایک ہزار کافروں پر غالب آجائیں گے، اس لییے کہ وہ بے سمجھ لوگ ہیں (جذبہ جہاد کی طاقت کا اندازہ ہی نہیں کرسکتے ہیں)
[٦٧] جہاد کی ترغیب :۔ اس حکم پر آپ نے مسلمانوں کو جہاد کے لیے جیسے ترغیب دی وہ درج ذیل احادیث میں ملاحظہ فرمائیے۔ ١۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ایک صبح یا شام اللہ کے راستے میں نکلنا دنیا و مافیہا سے افضل ہے۔‘‘ (بخاری، کتاب الجہاد، باب الغدوۃ والروحۃ، فی سبیل اللہ- مسلم، کتاب الامارۃ، باب فضل الغدوۃ والروحۃ فی سبیل اللہ) ٢۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی مثال، اور اللہ خوب جانتا ہے کہ اس کی راہ میں جہاد کرنے والا کون ہے۔ ایسے ہے جیسے ہمیشہ کا روزہ دار اور شب زندہ دار۔ اللہ نے اپنی راہ میں جہاد کرنے والے کے لیے اس بات کی ضمانت دی ہے کہ اگر اسے موت آ گئی تو جنت میں داخل کرے گا یا پھر اسے اجر اور غنیمت کے ساتھ صحیح و سالم واپس لوٹائے گا۔‘‘ (بخاری، کتاب الجہاد، باب افضل الناس مومن مجاھد بنفسہ ومالہ) ٣۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جو شخص اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے گھوڑا پا لے اور اس کی وجہ اللہ پر ایمان اور اس کے وعدوں کی تصدیق ہو تو بلاشبہ اس گھوڑے کا کھانا پینا، لید، پیشاب قیامت کے دن اس مجاہد کے ترازو میں (بطور نیکی) رکھے جائیں گے۔‘‘ (بخاری، کتاب الجہاد من احتبس فرسا) [٦٨] ایک مسلمان کا دس کافروں پر غالب آنے کی وجہ؟:۔ یعنی لڑائی سے کفار کا مقصد قبائلی یا قومی عصبیت کے سوا کچھ نہیں۔ جبکہ مومنوں کا اپنی جان تک قربان کرنے کا مقصد اللہ کے کلمہ کی سربلندی اور بالادستی اور رضائے الٰہی کا حصول ہے۔ علاوہ ازیں وہ یہ بھی یقین رکھتے ہیں کہ مرنے کے ساتھ ہی وہ سیدھے جنت میں پہنچ جائیں گے جبکہ کافروں کو موت بہر صورت ناگوار ہوتی ہے اور وہ لڑائی میں اپنی جان بچانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ جبکہ مومن جان دینے اور شہادت کا درجہ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہی وہ ایمانی قوت ہے جس کی بنا پر ایک مومن اپنے جیسے ہم طاقت دس کافروں کے مقابلہ سے بھی جی نہیں چراتا اور نہ ہی اسے ہمت ہارنا چاہیے، بلکہ انہیں اپنے سے دس گنا کافروں پر غالب آنا چاہیے۔