الَّذِينَ عَاهَدتَّ مِنْهُمْ ثُمَّ يَنقُضُونَ عَهْدَهُمْ فِي كُلِّ مَرَّةٍ وَهُمْ لَا يَتَّقُونَ
جن کے ساتھ آپ نے کئی بار معاہدہ کیا اور وہ ہر بار معاہدہ توڑتے رہے ہیں، اور وہ اللہ سے نہیں ڈرتے ہیں
[٥٩] میثاق مدینہ اور اس کی دفعات اور یہود قبائل کا اسے باری باری تسلیم کرنا :۔ انہی بدترین جانوروں میں بالخصوص وہ لوگ بھی شامل ہیں جو اپنے عہد کو ہر بار توڑتے رہتے ہیں۔ یہاں ان لوگوں سے مراد مدینہ کے یہود ہیں۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو آپ نے مدینہ کے یہودیوں اور دوسرے مشرک قبائل سے معاہدات کی داغ بیل ڈالی جو بعد میں میثاق مدینہ کے نام سے مشہور ہوا۔ یہود سے آپ نے جو معاہدہ کیا اس کی اہم دفعات یہ تھیں۔ ١۔ مسلمان اور یہود آپس میں امن و آشتی سے رہیں گے۔ کوئی ایک دوسرے پر ظلم و زیادتی نہیں کرے گا۔ ان کے تعلقات خیر خواہی اور فائدہ رسانی کی بنیاد پر ہوں گے۔ ٢۔ اگر مدینہ پر کوئی بیرونی حملہ ہوا تو مسلمان اور یہود دونوں مل کر اس کا دفاع کریں گے اور اخراجات بھی حصہ رسدی ادا کریں گے۔ ٣۔ یہود اپنے جھگڑوں کا اپنی شریعت کے مطابق خود ہی فیصلہ کریں گے۔ ہاں اگر وہ چاہیں تو اپنے مقدمات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس فیصلہ کے لیے لا سکتے ہیں۔ اس صورت میں آپ کا کیا ہوا فیصلہ ان پر نافذ العمل ہوگا۔ ٤۔ قریش اور ان کے مددگاروں کو پناہ نہیں دی جائے گی۔ ٥۔ کوئی آدمی اپنے حلیف کی وجہ سے مجرم نہ ٹھہرے گا۔ ٦۔ اس معاہدہ کے سارے شرکاء پر مدینہ میں ہنگامہ آرائی اور کشت وخون حرام ہوگا۔ ٧۔ اس معاہدہ کے فریقوں میں اگر کوئی جھگڑا ہوجائے تو اس کا فیصلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کریں گے۔ (ابن ہشام ج اول ١ : ٥٠٣، ٥٠٤) یہود کے تین قبائل مدینہ میں آباد تھے۔ تینوں نے اس معاہدہ کو باری باری تسلیم کرلیا۔ لیکن اپنی موروثی عادت کے مطابق بارہا اس معاہدہ کی خلاف ورزیاں کیں۔ انہوں نے اوس و خزرج کے درمیان دوبارہ عداوت ڈالنے کی کوششیں کیں۔ منافقوں کے ساتھ مل کر خفیہ اور معاندانہ سرگرمیوں میں مصروف رہے۔ ایک مسلمان عورت بنو قینقاع کے بازار میں ایک سنار کے ہاں گئی تو اسے ان لوگوں نے ازراہ شرارت ننگا کردیا۔ جس پر فریقین میں بلوہ ہوگیا۔ غزوہ بدر کے بعد کعب بن اشرف خود مکہ گیا اور مشرکین مکہ کو مسلمانوں کے خلاف جنگ پر بھڑکایا۔ ایک دفعہ یہود نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھت سے پتھر گرا کر ہلاک کرنا چاہا۔ جنگ خیبر کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوت میں بکری کا گوشت کھلانے کی کوشش کی جس میں زہر ملا ہوا تھا۔ غرض ان کی بد عہدیاں اور عہد شکنیاں اور معاندانہ سرگرمیاں اتنی زیادہ ہیں جن کا بیان یہاں ممکن نہیں۔