سورة الانفال - آیت 48

وَإِذْ زَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ وَقَالَ لَا غَالِبَ لَكُمُ الْيَوْمَ مِنَ النَّاسِ وَإِنِّي جَارٌ لَّكُمْ ۖ فَلَمَّا تَرَاءَتِ الْفِئَتَانِ نَكَصَ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ وَقَالَ إِنِّي بَرِيءٌ مِّنكُمْ إِنِّي أَرَىٰ مَا لَا تَرَوْنَ إِنِّي أَخَافُ اللَّهَ ۚ وَاللَّهُ شَدِيدُ الْعِقَابِ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور جب شیطان نے ان کے اعمال کو ان کے لیے خوشنما (40) بنا دیا اور کہا کہ آج کوئی تم پر غالب نہیں آئے گا، اور میں تمہارا مددگار ہوں، پس جب دونوں فوجیں ایک دوسرے کے سامنے آگئیں تو وہ الٹے پاؤں بھاگ کھڑا ہوا اور کہا کہ میرا تم سے کوئی تعلق نہیں، میں وہ دیکھ رہا ہوں جو تم نہیں دیکھ رہے ہو مجھے اللہ کا ڈر لگ رہا ہے، اور اللہ کا عذاب بہت ہی سخت ہوتا ہے

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٥٣] جنگ بدر میں سراقہ بن مالک کا موجود ہونا اور کافروں کی حوصلہ افزائی :۔ قریش اور بنو کنانہ کی آپس میں دشمنی تھی اور انہیں یہ خطرہ تھا کہ بنو کنانہ کہیں مسلمانوں کی حمایت کر کے ہمارے لیے خطرہ یا شکست کا باعث نہ بن جائیں۔ ان کے اس خدشہ کو مٹانے کے لیے شیطان خود بنو کنانہ کے رئیس سراقہ بن مالک کی شکل میں کافروں کے لشکر میں آ موجود ہوا اور ابو جہل سے کہنے لگا کہ ہماری طرف سے تم لوگ بالکل مطمئن رہو۔ اس معاملہ میں ہم لوگ تمہاری حمایت کریں گے اور مل کر مسلمانوں کا استیصال کریں گے۔ ویسے بھی تم لوگوں کی فتح یقینی ہے۔ تمہاری اتنی بڑی جمعیت کے سامنے ان تھوڑے سے مسلمانوں کی کیا حیثیت ہے۔ پھر جب میدان کار زار گرم ہوا اور اس نے مسلمانوں کی مدد کے لیے فرشتے اترتے دیکھ لیے اور یہ اندازہ کرلیا کہ اب مشرکین کی شکست یقینی ہے تو وہاں سے کھسکنے لگا۔ اس وقت ابو جہل نے کہا : عین مشکل کے وقت اب کہاں جاتے ہو؟ کہنے لگا جو کچھ مجھے نظر آ رہا ہے وہ تم نہیں دیکھ سکتے۔ یہ کہہ کر چلتا بنا۔ اس وقت بھی شیطان لعین نے اپنے ساتھیوں کو یہ نہ بتلایا کہ جو کچھ میں دیکھ رہا ہوں اس کے مطابق تمہاری ہلاکت ہونے والی ہے۔ لہٰذا تم بروقت اس کا تدارک سوچ لو۔ بلکہ انہیں دغا دے کر واپس چلا گیا۔