وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ خَرَجُوا مِن دِيَارِهِم بَطَرًا وَرِئَاءَ النَّاسِ وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ ۚ وَاللَّهُ بِمَا يَعْمَلُونَ مُحِيطٌ
اور تم لوگ ان کے مانند نہ ہوجاؤ جو اپنے گھروں سے اتراتے ہوئے اور لوگوں کے سامنے ریاکاری کرتے ہوئے نکلے، اور ان کا حال یہ تھا کہ وہ لوگوں کو اللہ کی راہ سے منع کرتے تھے، اور اللہ ان کے کارناموں سے پوری طرح واقف ہے
[٥٢] لشکر کفار کا شان وشوکت کا مظاہرہ :۔ یہاں ’’ان لوگوں‘‘ سے مراد مشرکین ہیں۔ جن کا سردار ابو جہل اپنا لشکر لے کر مکہ سے بڑی دھوم دھام اور باجے گاجے کے ساتھ نکلا تھا تاکہ مسلمان انہیں دیکھ کر ہی مرعوب ہوجائیں۔ نیز دوسرے قبائل عرب پر ان کی دھاک بیٹھ جائے۔ راستہ میں اسے ابو سفیان کا یہ پیغام مل بھی گیا کہ قافلہ خطرہ سے بچ نکلا ہے لہٰذا تم واپس آ جاؤ۔ لیکن ابو جہل نے غرور سے کہا۔’’ اب ہم اس وقت تک واپس نہیں جائیں گے جب تک بدر کے چشمہ پر پہنچ کر مجلس طرب و نشاط منعقد نہ کرلیں۔ وہاں گانے بجانے والی عورتیں خوشی اور کامیابی کے گیت گائیں گی۔ ہم وہاں شراب پئیں گے۔ مزے اڑائیں گے اور تین دن تک اونٹ ذبح کر کے قبائل عرب کی ضیافت کا اہتمام کریں گے تاکہ یہ دن عرب میں ہمیشہ کے لیے یادگار رہیں اور ان مٹھی بھر مسلمانوں پر ہمارا ایسا رعب طاری ہو کہ پھر کبھی ہمارے مقابلہ کی جرأت نہ کرسکیں۔‘‘ گویا اس وقت تک ابو جہل کا ارادہ صرف اپنی شان و شوکت جتلانے اور مسلمانوں پر رعب طاری کرنے کا تھا، لڑائی کا نہ تھا۔ پھر جب مسلمان بھی اللہ تعالیٰ کے حکم کے تحت وہاں پہنچ گئے اور لڑائی کی فضا بن گئی تو اس وقت بھی چند سرداروں نے ابو جہل کو لڑائی سے روکا۔ مگر پھر اس کا پندار اور غرور غالب آیا اور جن لوگوں نے اسے لڑائی روک دینے کا مشورہ دیا تھا انہیں بزدلی کے طعنے دینے لگا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کی مشیت پوری ہوگئی اور ابو جہل کو بالخصوص اس عذاب سے دوچار ہونا پڑا جس کی وہ طنزیہ دعا کیا کرتا تھا۔ اس کی موت دو نوجوان لڑکوں کے ہاتھوں واقع ہوئی اور وہ نہایت ذلت کی موت مرا۔