وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّىٰ لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلَّهِ ۚ فَإِنِ انتَهَوْا فَإِنَّ اللَّهَ بِمَا يَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
اور (مسلمانو !) تم کافروں سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ (33) کا سدباب ہوجائے اور مکمل اطاعت و بندگی اللہ کے لیے ہوجائے، پس اگر وہ لوگ باز آجائیں تو بے شک اللہ ان کے کرتوتوں کو خوب دیکھ رہا ہے
[٤٠] فتنہ کا مفہوم اور جہاد کی ضرورت :۔ فتنہ کا لفظ بڑا وسیع المعنیٰ ہے اور یہاں اس کا مفہوم اسلام کے خلاف ہر وہ معاندانہ کوشش ہے جو اسلام کی راہ میں رکاوٹ بن رہی ہو۔ ایسی رکاوٹ کو راستے سے ہٹانے اور اسلام کی راہ صاف کرنے کا نام جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ اب ان معاندانہ سرگرمیوں کی بھی دو قسمیں ہیں۔ ایک یہ کہ جہاں مسلمان رہتے ہوں وہاں کے کافر انہیں شرعی احکام بجا لانے کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کردیں یا ان پر عرصہ حیات تنگ کردیں اور دوسری قسم یہ ہے کہ مسلمان اپنی جگہ تو آزاد ہوں مگر دوسروں تک اسلام کی آواز پہنچانے میں رکاوٹیں کھڑی کردی جائیں۔ اسلام ان دونوں صورتوں میں جہاد کا حکم دیتا ہے۔ آج کی زبان میں پہلی قسم کے جہاد کا نام دفاعی جنگ ہے اور دوسری قسم کے جہاد کا نام جارحانہ جنگ ہے۔ اسلام ان دونوں طرح کی جنگوں میں کوئی فرق نہیں کرتا۔ کیونکہ جہاد فی سبیل اللہ کی تعریف ہی یہ ہے کہ لِتَكُونَ كَلِمَةُ اللَّهِ هِيَ الْعُلْيَا یعنی اللہ کے کلمہ کا بول بالا ہو اور یہ اسی صورت میں حاصل ہوسکتا ہے کہ ہر طرح کی رکاوٹ یا فتنہ کا قلع قمع کردیا جائے۔ [٤١] جارحانہ جہاد کے لیے شرائط :۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ جب تک ساری دنیا مسلمان نہ ہوجائے جہاد کرتے رہو۔ ایسی جارحانہ جنگ کا کوئی جواز نہیں۔ کیونکہ اسلام لانے پر کسی کو مجبور نہیں کیا جا سکتا چہ جائیکہ بزور شمشیر اسلام لانے پر مجبور کیا جائے۔ بلکہ یہ مطلب ہے کہ کوئی ملک یا علاقہ یا قوم اسلام کی راہ میں رکاوٹ کھڑی نہ کرے اور اس کی کئی صورتیں ہیں۔ مثلاً وہ مسلمان ہوجائے یا جزیہ دینا قبول کرلے یا مسلمانوں کی حلیف بن جائے یا غیر جانبدار رہنا گوارا کرلے اور معاہد بن جائے ان صورتوں میں اس سے تعرض نہیں کیا جائے گا۔ بالفاظ دیگر اس جملہ کا یہ مطلب ہوگا کہ اسلام کی بالادستی قائم ہوجائے اور اس بالادستی کی مکمل ترین صورت یہ ہے کہ ساری دنیا مسلمان ہوجائے جیسا کہ نزول مسیح کے بعد عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں ہوگا۔