لِيَمِيزَ اللَّهُ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ وَيَجْعَلَ الْخَبِيثَ بَعْضَهُ عَلَىٰ بَعْضٍ فَيَرْكُمَهُ جَمِيعًا فَيَجْعَلَهُ فِي جَهَنَّمَ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ
تاکہ اللہ خبیث کو طیب سے الگ (31) کردے، اور خبیثوں کو ایک دوسرے پر کر کے ان سب کا ایک ڈھیر لگا دے پھر انہیں جہنم کے سپرد کردے، وہی لوگ خسارہ اٹھانے والے ہیں
[٣٨] یعنی اسلام کے بتدریج غلبہ اور کفر کے بتدریج استیصال سے یہ فائدہ از خود حاصل ہوتا رہا ہے کہ معاندین اسلام مرکھپ جائیں گے یا قتل ہوجائیں گے اور باقی صرف وہ لوگ رہ جائیں گے۔ جن کے نصیب میں اسلام قبول کرنا ہوگا۔ اور معاندین کے اس گندے عنصر کو اللہ تعالیٰ ایک دوسرے کے اوپر رکھ کر اس سارے ملبے کو جہنم میں پھینک دے گا۔ ان لوگوں کا نقصان اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا کہ جس راہ میں انہوں نے اپنا تمام وقت، تمام محنت، تمام قابلیت اور پورا سرمایہ زندگی کھپا دیا ہو اور آخر میں انہیں یہ معلوم ہو کہ یہ راہ تو ہمیں تباہی اور جہنم کی طرف لے آئی ہے۔