وَمَن يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍ دُبُرَهُ إِلَّا مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ أَوْ مُتَحَيِّزًا إِلَىٰ فِئَةٍ فَقَدْ بَاءَ بِغَضَبٍ مِّنَ اللَّهِ وَمَأْوَاهُ جَهَنَّمُ ۖ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ
اور جو شخص اس دن دشمن کو پیٹھ دے گا سوائے اس کے کہ اس میں کوئی جنگی چال ہو، یا لشکر اسلام کی کسی جماعت سے مل جانا مقصود ہو وہ اللہ کے غضب کا مستحق ہوگا، اور اس کا ٹھکانا جہنم ہوگا، اور وہ بہت ہی بری جگہ ہوگی
[١٥] جنگ سے منہ موڑنا کبیرہ گناہ ہے :۔ جنگ سے پسپائی کی کئی صورتیں ہیں۔ مثلاً پوری فوج کی جنگی پالیسی ہی یہ ہو کہ اس مقام سے ہٹ کر فلاں مقام سے حملہ کرنا زیادہ سودمند ہوگا یا کوئی فوجی دستہ وہاں سے ہٹ کر اپنے مرکز سے جا ملنا چاہتا ہو، یا کوئی فرد پینترا بدلنے کی غرض سے پیچھے ہٹ آیا تو ایسی سب صورتیں جنگی تدبیریں کہلاتی ہیں۔ انہیں جنگ سے فرار یا پسپائی نہیں کہا جاتا بلکہ فرار سے مقصد ایسی پسپائی ہے جس سے محض اپنی جان بچانا مقصود ہو اور یہ گناہ کبیرہ ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس فعل کو ان سات بڑے بڑے گناہوں میں شمار کیا ہے جو انسان کو ہلاک کردینے والے ہیں۔ (بخاری، کتاب المحاربین، باب رمی المحصنات) اس گناہ کی شدت کی وجہ صرف یہ نہیں کہ ایک شخص اپنی جان بچا کر فوج میں ایک فرد کی کمی کا باعث بنتا ہے۔ بلکہ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس فعل سے باقی لوگوں کے بھی حوصلے پست ہوجاتے ہیں اور بھگدڑ مچ جاتی ہے اور بسا اوقات ایک یا چند شخصوں کا فرار پوری فوج کی شکست کا سبب بن جاتا ہے۔