كَمَا أَخْرَجَكَ رَبُّكَ مِن بَيْتِكَ بِالْحَقِّ وَإِنَّ فَرِيقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ لَكَارِهُونَ
(جس طرح تقسیم غنائم کا معاملہ اللہ اور رسول کے حوالے کردینا ہی بہتر رہا، اگرچہ بعض مسلمانوں نے اس میں اختلاف کیا تھا) اسی طرح آپ کے رب نے آپ کو اسلام اور مسلمانوں کی مصلحت کے پیش نظر آپ کے گھر سے نکالا (3) اگرچہ مسلمانوں کی ایک جماعت اسے بار گراں سمجھ رہی تھی
[٨] جنگ بدر کا پس منظر :۔ اموال غنیمت کے متعلق فیصلہ کرنے اور مومن کو پند و نصائح کے بعد اب یہ بتلایا جا رہا ہے کہ غزوہ بدر کی ابتداء کن حالات میں اور کیسے ہوئی۔ صورت حال یہ تھی کہ کفار مکہ کے ظلم و ستم سے مجبور ہو کر اور لٹ پٹ کر مسلمان ہجرت کر کے مدینہ آ گئے تھے۔ مگر ان کفار نے پھر بھی مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا اکا دکا ناکام سے حملے بھی کرچکے تھے اور آئندہ مسلمانوں کے مکمل طور پر استیصال کی تدبیریں سوچ رہے تھے۔ ان حالات میں مسلمانوں نے یہ سوچا کہ قریش کی تجارتی شاہراہ کی ناکہ بندی کردی جائے چنانچہ اس غرض کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شاہراہ کے قریب بسنے والے قبائل سے معاہدے بھی کئے، ان میں سے بعض قبائل تو مسلمانوں کے حلیف بن گئے اور بعض سے غیر جانبدار رہنے کا معاہدہ کیا گیا۔ اور اس ناکہ بندی سے مقصود یہ تھا کہ اس تجارت سے کمایا ہوا مال جو مسلمانوں کے استیصال پر خرچ ہونا ہے اس پر مسلمان کنٹرول کرسکیں۔ دوسرے ان مشرکوں نے مسلمانوں کو بے سرو سامانی کی حالت میں ہجرت کرنے پر مجبور کیا اور بعد میں ان کی جائیدادوں پر بھی قبضہ کرلیا تھا۔ پھر انہی جائیدادوں کو بیچ کر ان سے اس تجارتی قافلہ کے لیے سرمایہ مہیا کیا گیا تھا۔ اور طے یہ ہوا تھا کہ اس تجارتی قافلہ کا منافع تو مسلمانوں کے استیصال پر خرچ کیا جائے۔ اور اصل زر ان لوگوں کو واپس کردیا جائے جنہوں نے مسلمانوں کی جائیدادیں فروخت کر کے سرمایہ لگایا تھا۔ اس طرح وہ گویا مسلمانوں پر دوہرا ظلم ڈھا رہے تھے۔ اور ان واقعات کی خبریں مدینہ بھی پہنچ رہی تھیں۔ لہٰذا مسلمانوں کے لیے اس قافلہ کی ناکہ بندی ضروری ہوگئی تھی۔ چنانچہ ٢ ھ میں قریش کا یہی قافلہ ابو سفیان کی سر کردگی میں شام سے واپس مکہ جا رہا تھا۔ اس قافلہ کے محافظ تو صرف چالیس پچاس آدمی تھے۔ جبکہ یہ قافلہ ایک ہزار بار بردار اونٹوں پر مشتمل تھا اور تقریباً پچاس ہزار دینار کا مال لے کر مکہ جا رہا تھا۔ مسلمانوں نے ارادہ کیا کہ اس قافلہ پر حملہ کردیا جائے جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہوتا ہے۔ قافلہ پر حملہ کی تیاری :۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بسیسہ کو جاسوس بنا کر بھیجا تاکہ وہ معلوم کر کے آئیں کہ ابو سفیان کا قافلہ کس حال میں ہے۔ بسیسہ جب واپس آئے تو اس وقت گھر میں میرے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سوا کوئی نہ تھا۔ بسیسہ نے خبر سنائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لے گئے اور فرمایا : ’’ہمیں قافلہ کی طلب ہے۔ لہٰذا جس کے پاس سواری ہو وہ ہمارے ساتھ چلے۔ بعض لوگوں نے دور کے مقام سے اپنی سواریاں لانے کی اجازت طلب کی۔ آپ نے فرمایا : نہیں جس کی سواری حاضر ہے وہ چلیں۔ پھر آپ صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ روانہ ہوگئے۔‘‘ (مسلم، کتاب الامارہ، باب ثبوت الجنۃ للشہید) ابوجہل کا جنگ پر اصرار :۔ اسی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاد کی غرض سے کسی کو شامل ہونے کی دعوت نہیں دی تھی۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گھر سے نکال لانے میں اللہ کی حکمت یہ تھی کہ کافروں سے مڈ بھیڑ ہو اور حق و باطل کا معرکہ بپا ہو۔ چنانچہ حالات کا پانسہ یوں بدلا کہ ابو سفیان کو بھی مسلمانوں کے اس ارادہ کی خبر ہوگئی تو اس نے قافلہ کی حفاظت کے لیے ایک تیز رفتار سوار کو مکہ بھیج کر کفار مکہ کو مسلمانوں کے اس ارادہ سے مطلع کردیا۔ چنانچہ ایک ہزار آدمیوں پر مشتمل لشکر ابو جہل کی سر کردگی میں اس تجارتی قافلہ کی حفاظت کے لیے روانہ ہوگیا۔ اب اللہ تعالیٰ کا کرنا یہ ہوا کہ ابو سفیان اپنی راہ بدل کر خیر خیریت سے واپس مکہ مکرمہ پہنچ گیا اور کافروں کا یہ لشکر میدان بدر تک جا پہنچا۔ وہاں پہنچ کر ان لوگوں کو بھی خبر مل گئی کہ تجارتی قافلہ بخیریت مکہ پہنچ گیا ہے۔ لہٰذا کچھ لوگوں کی رائے یہ ہوئی کہ اب ہمیں واپس مکہ چلے جانا چاہیے کیونکہ جس مقصد سے ہم آئے تھے وہ پورا ہوچکا۔ لیکن ابو جہل اس بات پر مصر تھا کہ یہاں تک تو یہ لشکر پہنچ ہی چکا ہے اور مسلمان بھی آ پہنچے ہیں تو اب ان سے جنگ کر کے اور ان کا استیصال کر کے ہی جانا چاہیے۔ اس طرح اس معرکہ حق و باطل کے لیے فضا سازگار بن گئی۔