قُل لَّا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ ۚ وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ ۚ إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
آپ کہئے کہ میں تو اپنے نفع و نقصان کا مالک نہیں ہوں، سوائے اس کے جو اللہ چاہے، اور اگر میں غیب (118) کا علم رکھتا تو بہت ساری بھلائیاں اکٹھا کرلیتا، اور مجھے کوئی تکلیف نہیں پہنچتی، میں تو صرف ایمان والوں کو جہنم سے ڈرانے والا اور جنت کی خوشخبری دینے والا ہوں
[١٨٨] علم غیب جاننے کے فائدے، غیب کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں :۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے علم غیب جاننے کے دو فائدے بتلائے ہیں۔ ایک یہ کہ علم غیب جاننے والا اپنے لیے بہت سی بھلائیاں جمع کرسکتا ہے مثلاً ایک عام مثال لیجئے اگر کسی کو یہ بات یقینی طور پر معلوم ہو کہ فلاں وقت فلاں چیز کا بھاؤ اس حد تک چڑھ جائے گا تو وہ آسانی سے بہت نفع حاصل کرسکتا اور بہت سا مال و دولت کما سکتا ہے اور دوسرا یہ کہ ایسے شخص کو کوئی تکلیف نہیں پہنچ سکتی۔ اس لیے کہ وہ بروقت یا وقت سے پہلے اس کا علاج سوچ سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول سے فرمایا کہ آپ لوگوں سے کہہ دیجئے کہ میں تو اپنے بھی نفع و نقصان کا کچھ اختیار نہیں رکھتا تو تمہارا یا دوسروں کے نفع و نقصان کا کیسے مختار ہوسکتا ہوں، اور دوسری بات اس سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ جب مجھے اتنا بھی علم غیب حاصل نہیں کہ اپنا ہی نفع و نقصان سوچ سکوں تو قیامت کے واقع ہونے کے متعلق آپ کو کیا بتا سکتا ہوں؟۔ غیب کی خبریں بتلانے والے :۔ اب اسی معیار پر ان لوگوں کو آپ پرکھ لیجئے جو ستاروں کی چالوں سے، ہاتھ کی لکیروں سے، مختلف طریقوں سے فال لینے سے یا جفرور مل کے علم سے یا اپنے کشف سے علم غیب جاننے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ان کے اس دعویٰ کی کیا حقیقت ہے۔ مثلاً ایک نجومی، جوتشی جو فٹ پاتھ پر بیٹھ کر قسمت کی انگوٹھیاں بیچتا اور مختلف طرح سے لوگوں کو ان کی قسمت کے احوال سے مطلع کرتا ہے اگر وہ یہ علم جانتا ہوتا تو کیا اس کی یہ حالت زار ہو سکتی تھی؟ کیا وہ چند دنوں میں امیر کبیر نہ بن سکتا تھا ؟ دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں کاہن حضرات لوگوں کو غیب کی خبریں بتلایا کرتے اور اس غرض سے بڑے بڑے لوگ دور دور سے ان کے آستانوں پر آتے اور گراں قدر نذرانے پیش کرتے تھے۔ اس سلسلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جو شخص غیب کی خبریں بتلانے والے کے پاس جائے اور اس سے کچھ پوچھے تو اس کی چالیس دن تک نماز قبول نہیں ہوتی۔‘‘ (مسلم۔ کتاب السلام، باب تحریم الکھانۃ ورتیان الکھان بحوالہ کتاب التوحیدباب ٢٦ ماجاء فی الکھان ونحوھم) نیز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’جو کوئی کسی کاہن کے پاس جا کر دریافت کرے پھر اسے سچا سمجھے تو اس نے اس سے اظہار براءت کیا جو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوا ہے۔‘‘(ابو داؤد۔ کتاب الطب باب فی الکاھن۔ باب الکھانۃ والتطیر) ان احادیث سے از خود یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ غیب کی خبریں بتلانے والا خود کافر ہوتا ہے۔