وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِن بَنِي آدَمَ مِن ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ ۖ قَالُوا بَلَىٰ ۛ شَهِدْنَا ۛ أَن تَقُولُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَٰذَا غَافِلِينَ
اور جب آپ کے رب نے بنی آدم کی اولاد کو ان کی پیٹھوں (106) سے نکالا اور انہیں انہی کے بارے میں گواہ بنا کر پوچھا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں تو انہوں نے کہا، ہاں، ہم اس کی گواہی دیتے ہیں، یہ اس لیے کیا گیا کہ کہیں تم لوگ قیامت کے دن کہنے لگو کہ ہمیں تو ان باتوں کی قطعی کوئی خبر ہی نہیں تھی
[١٧٥] سابقہ آیت میں ایک خاص عہد کا ذکر تھا جو یہود سے لیا گیا تھا اور اس آیت میں عام عہد کا ذکر ہے جو فرداً فرداً تمام انسانوں سے لیا گیا تھا اور یہ اس دور کا واقعہ ہے جب اللہ تعالیٰ آدم علیہ السلام کو پیدا کرچکے تھے اور خلافت ارضی کے لیے انہیں منتخب کیا جا چکا تھا۔ کتاب و سنت کی تصریحات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آدم علیہ السلام کو پیدا کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کی پشت پر ہاتھ پھیرا اور ان کی نسل سے تاقیامت پیدا ہونے والی اولاد کی روحوں کو اپنے سامنے حاضر کرلیا اور ان ارواح کو وہی شکل عطا کی گئی جو ان کی پیدائش کے بعد انہیں میسر ہونے والی تھی اور بعض احادیث کے مطابق ان ارواح کی شکل چیونٹیوں کی سی تھی۔ پھر ان ارواح کو مخاطب کر کے فرمایا : اس بھری کائنات کو خوب دیکھ بھال کر بتلاؤ کہ یہاں میرے سوا تمہیں کوئی اور پروردگار نظر آتا ہے اور کیا تمہارا پروردگار بھی میں ہی نہیں؟ تو ان سب ارواح نے مل کر یقین کے ساتھ یہ شہادت دی کہ اے اللہ صرف توہی ہمارا پروردگار ہے۔ بالفاظ دیگر یہ اس بات کی شہادت تھی کہ ہم کبھی کسی دوسرے کو تیرا شریک نہیں بنائیں گے۔ عہد الست کی تفصیل اور حالات ارضی :۔ یہ واقعہ محض تمثیلی طور پر بیان نہیں ہوا جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے بلکہ اس خارجی کائنات میں فی الواقع اسی طرح وقوع پذیر ہوا تھا جس طرح آدم علیہ السلام کی خلافت کے متعلق آدم علیہ السلام کی تخلیق سے پیشتر اللہ تعالیٰ کا فرشتوں سے مکالمہ کا واقعہ ظہور پذیر ہوا تھا اور یہ اقرار اس لیے لیا گیا تھا کہ خلافت ارضی کی بنیاد اس وقت تک اٹھ ہی نہیں سکتی جب تک انسان ان دو باتوں کا اقرار نہ کرلے۔ ایک یہ کہ اس کائنات کا یقینی طور پر کوئی خالق موجود ہے اور دوسرے یہ کہ وہی خالق اس کائنات کی تربیت کر کے اس کو حد کمال تک پہنچانے والا ہے اور اس کے سوا کوئی پروردگار نہیں گویا یہی شہادت خلافت ارضی کے لیے بنیادی پتھر کا کام دیتی ہے اگر اس بنیاد کو نیچے سے کھینچ لیا جائے تو خلافت ارضی کا تصور بھی محال ہے لہٰذا بنی آدم کی تمام تر ارواح میں اس بنیادی حقیقت کی تخم ریزی کردی گئی۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ عہد اتنا اہم تھا تو انسان کو یاد کیوں نہیں رہا ؟ اس کا الزامی جواب تو یہ ہے کہ انسان کو تو یہ بھی یاد نہیں کہ وہ اپنی ماں کے پیٹ میں رہا تھا پھر اس سے پیدا ہوا کہاں پیدا ہوا ؟ کس وقت ہوا۔ غرض یہ کہ بے شمار ایسی باتیں ہیں جو انسان کو یاد نہ رہنے کے باوجود اپنی جگہ پر ٹھوس حقیقتیں ہوتی ہیں لہٰذا یاد نہ رہنے کا عذر معقول نہیں ہوسکتا اور حقیقی جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو یہ منظور ہی نہ تھا کہ وہ عہد انسان کو ہر وقت یاد رہے کیونکہ اس صورت میں انسان اللہ سے بغاوت اور اس کی نافرمانی کر ہی نہیں سکتا تھا اور یہ بات مشیت الہٰی کے خلاف ہے کیونکہ یہ دنیا انسان کے لیے دارالامتحان ہے لہٰذا اس واقعہ کو انسان کے شعور میں نہیں بلکہ تحت الشعور یا وجدان میں رکھ دیا گیا اور یہ اسی داعیہ کا اثر ہے کہ بعض دفعہ پکے کافر اور دہریہ قسم کے لوگ بھی اللہ تعالیٰ کی ذات کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں یا مصیبت کے وقت لاشعوری طور پر اسے پکارنے لگتے ہیں۔ اس عہد کے لاشعور میں موجود ہونے کا دوسرا ثبوت یہ ہے کہ انسان میں دو طرح کی استعدادیں رکھی گئی ہیں ایک بالقوۃ، دوسری بالفعل۔ مثلاً ایک انسان پینٹر بننا چاہتا ہے تو وہ اسی صورت میں ممکن ہے جبکہ اس میں یہ استعداد بالقوۃ موجود ہو یعنی وہ پینٹر بننے کی صلاحیت رکھتا ہو پھر اسے اس کے مطابق خارجی ماحول میسر آجائے یعنی اسے کوئی استاد وقت اور متعلقہ آلات اور سامان مل جائے تو محنت سے وہ پینٹر بن جائے گا۔ اس وقت اس کی وہ استعداد جو بالقوۃ تھی وہ بالفعل میں تبدیل ہوگئی اور اگر انسان یہ چاہے کہ وہ فرشتہ بن جائے تو وہ کبھی نہ بن سکے گا خواہ لاکھوں کوششیں کرے کیونکہ اس میں فرشتہ بننے کی استعداد بالقوۃ موجودہی نہیں ہے۔ قرآن کس لحاظ سے ذکر اور تذکرہ ہے؟ :۔ اب ہمارا دعویٰ یہ ہے کہ اس عہد الست کی یاد اور خلافت ارضی کی استعداد انسان میں بالقوۃ موجود ہے پھر جب اسے خارج سے موافق ماحول اور سامان میسر آ جاتا ہے تو اس کی یہی استعداد بالفعل میں تبدیل ہوجاتی ہے موافق سامان اور ماحول سے یہاں مراد اللہ تعالیٰ کے پیغمبر اور اس کی کتابیں ہیں جو انسان کی استعداد کو صحیح راستے پر چلا دیتی ہیں تو اس ماحول سے ایسا صالح عنصر وجود میں آ جاتا ہے جو خلافت کی ذمہ داریوں کو سنبھالنے کے معیار پر پورا اترتا ہے اسی لیے قرآن میں انبیاء و رسل کو مذکر (اس عہد الست بربکم کی یاددہانی کرانے والے) اور خود قرآن کو ذکر اور تذکرہ (یاد دہانی) کہا گیا ہے گویا انبیاء علیہم السلام اور کتابوں کا یہ کام ہوتا ہے جو استعداد انسان کے اندر بالقوۃ موجود تھی اس کو یاد دہانی کراتے رہیں اور اسے بالفعل کے مقام پر لے آئیں۔