وَاكْتُبْ لَنَا فِي هَٰذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ إِنَّا هُدْنَا إِلَيْكَ ۚ قَالَ عَذَابِي أُصِيبُ بِهِ مَنْ أَشَاءُ ۖ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ ۚ فَسَأَكْتُبُهَا لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَالَّذِينَ هُم بِآيَاتِنَا يُؤْمِنُونَ
اور (اے میرے رب !) تو ہمارے لیے اس دنیا میں بھی بھلائی لکھ دے، اور آخرت میں بھی ہم نے تیری طرف رجوع کرلیا، اللہ نے کہا، میں اپنے عذاب (88) میں جسے چاہتا ہوں مبتلا کرتا ہوں، اور میری رحمت ہر چیز کو شامل ہے، پس میں اسے ان لوگوں کے لیے لکھ دوں گا جو تقوی (89) کی راہ اختیار کرتے ہیں اور زکاۃ دیتے ہیں اور ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں
[١٥٣] اللہ کی رحمت دنیا میں سب کے لئے عام ہے :۔ موسیٰ علیہ السلام نے اپنی امت کے لیے دنیا اور آخرت دونوں جگہ کی بھلائی طلب فرمائی، تو اللہ تعالیٰ نے جواب میں فرمایا اصل چیز جس پر یہ کائنات کا سارا نظام چل رہا ہے وہ میری رحمت ہے اور ساری مخلوق میری رحمت سے مستفید ہو رہی ہے۔ سزا تو میں صرف اس شخص کو دیتا ہوں جس کے حق میں اس کی نافرمانیوں کی بنا پر وہ مقدر ہوچکی ہے بلکہ وہ بھی بسا اوقات دنیا میں میری رحمتوں سے مستفیض ہوتے رہتے ہیں اور جس خیر اور بھلائی کا تم مطالبہ کر رہے ہو کہ دنیا میں بھی یہ نعمت ملے اور آخرت میں بھی یہ صرف ان لوگوں کا حصہ ہے جو ہماری آیات پر ایمان لاتے ہیں اور تقویٰ کی راہ اختیار کرتے اور اپنے اموال سے ہمارا حق یعنی زکوٰۃ بھی ادا کرتے ہیں ایسے لوگ دنیا اور آخرت دونوں جگہ میری رحمت سے ہم کنار ہوں گے۔ یہاں تک موسیٰ علیہ السلام کی دعا کا جواب ختم ہوتا ہے۔