فَإِذَا جَاءَتْهُمُ الْحَسَنَةُ قَالُوا لَنَا هَٰذِهِ ۖ وَإِن تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَطَّيَّرُوا بِمُوسَىٰ وَمَن مَّعَهُ ۗ أَلَا إِنَّمَا طَائِرُهُمْ عِندَ اللَّهِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ
پس جب انہیں کوئی اچھی چیز ملتی تو کہتے کہ ہم تو ہیں ہی اس کے حقدار، اور اگر ان کا کوئی نقصان ہوجاتا تو مومسی اور ان کے ساتھیوں سے بد شگونی لیتے حالانکہ ان کی شومئی قسمت تو اللہ کی جانب سے ہے، لیکن ان میں سے اکثر لوگ کچھ نہیں جانتے
[١٢٧] یہ ویسی ہی تنبیہات ہیں جن کے ذریعے اللہ تعالیٰ چھوٹے موٹے عذاب بھیج کر لوگوں کی آزمائش کرتے ہیں کہ وہ اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں یا نہیں ان تنبیہات کا نتیجہ بھی ان کے حق میں صفر ہی رہا جب بھلے دن آتے تو کہتے کہ یہ ہماری عقل مندی اور حسن تدبیر کا نتیجہ ہے اور ہم فی الواقع اس بھلائی کے مستحق تھے اور جب برے دن آتے تو سیدنا موسیٰ علیہ السلام اور آپ کے اصحاب کو مطعون کرنے لگتے کہ ان لوگوں کی نحوست سے ہمیں یہ برے دن دیکھنے نصیب ہوئے ان کے اپنے گناہوں کی طرف ان کی نظر جاتی ہی نہ تھی۔ حالانکہ یہ بات تو اللہ کے علم میں ہے کہ ان کی نحوست کے اصل اسباب کیا تھے؟