قَالَ نَعَمْ وَإِنَّكُمْ لَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ
فرعون نے کہا، اور تم لوگ بے شک میرے مقرب لوگوں میں داخل ہوجاؤ گے
[١١٥] جادوگروں سے مقابلہ :۔ مقابلے کے لیے عید کا دن طے ہوا جس میں عوام الناس کو بھی شمولیت کی عام دعوت دی گئی تھی اس بھرے مجمع میں فرعون اپنے سب درباریوں سمیت حاضر ہوا اور سیدنا موسیٰ علیہ السلام اور سیدنا ہارون علیہ السلام بھی بروقت پہنچ گئے اور جادوگروں کو چونکہ شاہی دربار سے بلاوا آیا تھا لہٰذا انہوں نے آتے ہی یہ سوال کردیا کہ انہیں ان کے ایسے بڑے مقابلہ کرنے کے عوض کچھ مزدوری بھی ملے گی؟ اسی ایک بات سے ایک جادوگر اور ایک نبی کا فرق واضح ہوجاتا ہے۔ جادوگر جو کچھ کرتا ہے اپنے پیٹ کی خاطر کرتا ہے اور یہی اس کا پیشہ ہوتا ہے جبکہ انبیاء علیہم السلام ہمیشہ اپنی قوم سے یہی کہتے رہے کہ ’’ہم تم سے کچھ نہیں مانگتے ہمارا اجر اللہ کے ذمے ہے۔‘‘ خیر جادوگروں کے اس سوال پر فرعون نے جادوگروں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا کہ صرف مزدوری کی کیا بات کرتے ہو تمہیں میرے ہاں مناصب بھی ملیں گے اور فرعون نے ایسا جواب اس لیے دیا کہ یہ اس کی عزت اور بے عزتی کا مسئلہ بن گیا تھا۔