وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَىٰ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِم بَرَكَاتٍ مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ وَلَٰكِن كَذَّبُوا فَأَخَذْنَاهُم بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ
اور اگر بستیوں والے ایمان (53) لے آتے اور تقوی کی راہ اختیار کرتے، تو ہم آسمان و زمین کی برکتیں ان پر کھل دیتے، لیکن انہوں نے رسولوں کو جھٹلایا، تو ہم نے ان کے کیے کی وجہ سے انہیں پکڑ لیا
[١٠١] اللہ کے فرمانبردار معاشرے پر برکتوں کا نزول :۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایک ایسا اصول بیان فرمایا ہے جس کی ظاہر بین عقل پرستوں کو سمجھ آ ہی نہیں سکتی البتہ تجربہ اور مشاہدہ دونوں اس حقیقت پر گواہ ہیں کہ جس علاقے میں اللہ کے احکامات کی جس حد تک تعمیل کی جا رہی ہو اس علاقے پر اللہ کی رحمتوں اور برکتوں کا نزول شروع ہوجاتا ہے موجودہ دور میں اس کی مثال کسی حد تک سعودی عرب میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اللہ کی مقرر کردہ حدود میں سے کسی ایک حد کے قائم کرنے سے اتنی برکات اور رحمتوں کا نزول ہوتا ہے جتنا چالیس دن کی بارش سے ہوتا ہے (نسائی۔ کتاب قطع السارق باب الترغیب فی اقامۃ الحد)