فَتَوَلَّىٰ عَنْهُمْ وَقَالَ يَا قَوْمِ لَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ رِسَالَةَ رَبِّي وَنَصَحْتُ لَكُمْ وَلَٰكِن لَّا تُحِبُّونَ النَّاصِحِينَ
تو صالح نے ان سے منہ پھیر لیا اور کہا، اے میری قوم ! میں نے تمہیں اپنے رب کا پیغام پہنچا دیا ہے، اور تمہاری خیر خواہی کی ہے، لیکن تم خیر خواہوں کو پسند نہیں کرتے
[٨٤] ہجرت سے پہلے اپنی قوم کو خطاب :۔ حجر جیسے متمدن شہر کے کھنڈرات دیکھنے ہی سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ اس شہر کی آبادی چار پانچ لاکھ کے لگ بھگ ہوگی مگر ان میں سے صرف ایک سو بیس آدمی سیدنا صالح علیہ السلام پر ایمان لائے تھے اللہ تعالیٰ نے سیدنا صالح علیہ السلام کو عذاب کی آمد کے وقت سے مطلع کردیا تھا چنانچہ انہوں نے ان پیروکاروں کو لے کر فلسطین کا رخ کیا اور جاتے جاتے اپنی قوم کے لوگوں سے نہایت افسوس سے یہ خطاب کیا کہ میں نے تو تمہیں اللہ کا پیغام بھی پہنچا دیا تھا اور تمہاری خیر خواہی کی بھی انتہائی کوشش کی تھی لیکن تم ان باتوں کا مذاق ہی اڑاتے رہے اب تم جانو تمہارا کام۔ یہ کہہ کر آپ شہر سے باہر نکلے ہی تھے کہ اس قوم پر عذاب نازل ہوگیا فلسطین پہنچ کر آپ اپنے ساتھیوں سمیت رملہ کے قریب آباد ہوگئے اور کچھ عرصہ بعد اسی مقام پر وفات پائی۔