فَأَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَأَصْبَحُوا فِي دَارِهِمْ جَاثِمِينَ
پس انہیں زلزلہ نے آلیا جس کے نتیجہ میں سب اپنے گھروں میں اوندھے منہ گر کر مر گئے
[٨٣] قوم ثمود کے کھنڈرات :۔ اللہ تعالیٰ نے سیدنا صالح علیہ السلام کو بھی ان کے منصوبہ کی اطلاع دے دی اور ہجرت کا حکم بھی آ گیا۔ تیسرے دن ان لوگوں کو پہاڑوں کی طرف سے ایک سیاہ بادل ان کی طرف بڑھتا ہوا نظر آیا تو بڑے خوش ہوئے کہ اب بارش ہونے والی ہے مگر یہ بارش برسانے والا بادل نہ تھا بلکہ ان کی جانوں پر مسلط ہوجانے والا اللہ کا عذاب تھا جس میں سیاہ غلیظ گندھک کے بخارات ملا ہوا دھواں تھا۔ ساتھ ہی کسی پہاڑ سے کوئی لاوا پھٹا جس سے شدید زلزلہ آ گیا اور اس سے ہولناک چیخوں کی آواز بھی آتی رہی جس سے دل دہل جاتے اور کان پھٹے جاتے تھے اور غلیظ دھوئیں نے ان کے جسم کے اندر داخل ہو کر ان کے دلوں اور کلیجوں کو ماؤف کردیا اور انہیں سانس تک لینا بھی محال ہوگیا جس سے یہ ساری کی ساری قوم چیخ چیخ کر اور تڑپ تڑپ کر وہیں ڈھیر ہوگئی اور اس شدید زلزلے نے ان کے محلات کو کھنڈرات میں تبدیل کردیا پہاڑوں میں تراشے ہوئے مکانات سوائے چند ایک سب چکنا چور ہوگئے۔ جب غزوہ تبوک سے واپسی پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھوڑی دیر کے لیے حجر کے مقام پر اترے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو وہ کنواں بھی دکھلایا جہاں سے اونٹنی پانی پیتی تھی اس درہ کو فج الناقۃ کہتے ہیں۔ پھر کچھ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین ان کے کھنڈرات بطور سیر و تفریح دیکھنے چلے گئے تو اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ایسے مقامات جہاں پر اللہ کا عذاب نازل ہوچکا ہو مقام عبرت ہوتے ہیں وہاں داخل ہو تو اللہ سے ڈرتے ہوئے اور روتے ہوئے داخل ہو اور وہاں سے جلد نکل جایا کرو مبادا ایسا عذاب تم پر بھی آ جائے جو ان پر آیا تھا۔ (بخاری۔ کتاب بدالانبیاء باب قول اللہ ( وَاِلٰی ثَمُوْدَ اَخَاہُمْ صٰلِحًا 61 ) 11۔ ھود :61)