فَعَقَرُوا النَّاقَةَ وَعَتَوْا عَنْ أَمْرِ رَبِّهِمْ وَقَالُوا يَا صَالِحُ ائْتِنَا بِمَا تَعِدُنَا إِن كُنتَ مِنَ الْمُرْسَلِينَ
پھر انہوں نے اونٹنی کو کاٹ ڈالا اور اپنے رب کے حکم سے سرکشی کی اور کہا، اے صالح ! اگر تو واقعی رسول ہے تو وہ عذاب لے آ جس کا تو ہم سے وعدہ کرتا تھا
[٨١] اللہ کی اونٹنی کا انجام اور اسے مارنے والا :۔ اس قوم نے جس معجزہ کا مطالبہ کیا تھا وہ ان کے لیے وبال جان بن گیا کیونکہ جتنا پانی ان کے تمام جانور پیتے تھے اتنا وہ اکیلی ہی پی جاتی تھی اور ان کے ہاں پانی کی قلت بھی تھی اسی لیے پانی کی باری مقرر کی گئی تھی اور جتنا سب جانور کھاتے تھے اتنا وہ اکیلی کھا جاتی تھی۔ مگر وہ اس اونٹنی کو برے ارادے سے ہاتھ بھی نہیں لگاتے تھے کیونکہ وہ دل سے یقین کرچکے تھے کہ صالح علیہ السلام سچا پیغمبر ہے اور اگر ہم نے اس اونٹنی سے کوئی برا سلوک کیا تو پھر ہماری خیر نہیں لیکن دل سے ہر کافر یہ چاہتا تھا کہ کسی نہ کسی طرح اس اونٹنی کا وجود ختم ہوجائے تو بہتر ہے۔ آخر باہمی مشورے اور اتفاق رائے سے ان میں سے ایک تنومند اور سب سے زیادہ بدبخت انسان نے اس بات کا ذمہ لیا کہ اس اونٹنی کو میں ٹھکانے لگاتا ہوں چنانچہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے خطبہ کے دوران فرمایا کہ یہ شخص اپنی قوم کا ایک زور آور، شریر مضبوط شخص تھا جو اونٹنی کو زخمی کرنے کی مہم پر اٹھ کھڑا ہوا اس کا نام قدار تھا اور وہ اپنی قوم میں ایسے ہی تھا جیسے تم میں ابو زمعہ (جو سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کا چچا تھا)۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ تفسیر سورۃ والشمس) یہ قدار بن سالف سرخ رنگ کا، نیلی آنکھوں والا، بڑے ڈیل ڈول کا مالک اور ولدالزنا تھا۔ خود بھی بدکار تھا اور شہر کے مشہور و معروف نو بدمعاشوں کا سرغنہ تھا۔ اس نے اپنی آشنا عورت کی انگیخت ہی پر اونٹنی کو زخمی کرنے کا یہ کارنامہ سر انجام دیا تھا البتہ اس نے دوسرے کافروں اور ان کی عورتوں سے اس کے متعلق مشورہ ضرور کرلیا تھا اور یہ سب لوگ اس بات پر خوش تھے کہ اس اونٹنی سے کسی طرح ہمیں نجات مل جائے۔ چنانچہ جب اس نے اونٹنی کی کونچیں کاٹ ڈالیں تو اونٹنی نے ایک ہولناک قسم کی چیخ ماری اور دوڑ کر اسی پہاڑ کی طرف چلی گئی جس سے برآمد ہوئی تھی اس کا بچہ بھی اپنی ماں کے ساتھ چلا گیا اور یہ دونوں معجزانہ طور پر اسی پہاڑ میں غائب ہوگئے۔ [ ٨٢] اونٹنی سے نجات پا کر ان لوگوں نے خوشیاں منائیں اور صالح علیہ السلام نے بذریعہ وحی اطلاع پا کر ان لوگوں کو عذاب کی دھمکی دے دی اور فرمایا کہ بس اب تمہارے لیے تین دن کی مہلت ہے۔ تین دن تم مزے اڑا لو پھر اس کے بعد تم پر اللہ کا عذاب آنے ہی والا ہے۔ لیکن قوم نے صالح علیہ السلام کی اس تنبیہ کو کچھ اہمیت نہ دی اور آپ کو جھوٹا سمجھا اور کہا کہ جس عذاب کی دھمکی دیتے ہو وہ اب لے بھی آؤ اور در پردہ اب سیدنا صالح علیہ السلام کے قتل کی بھی تیاریاں ہونے لگیں۔ منصوبہ یہ تیار ہوا کہ سب لوگ مل کر آپ کے گھر کا محاصرہ کریں اور مشترکہ طور پر یکبارگی حملہ کر کے ان کا کام تمام کردیں۔ بعد میں اگر کوئی پوچھے تو سب قسمیں کھا کر یہ کہہ دیں کہ ہمیں تو اس قصے کا کچھ علم ہی نہیں۔