هَلْ يَنظُرُونَ إِلَّا تَأْوِيلَهُ ۚ يَوْمَ يَأْتِي تَأْوِيلُهُ يَقُولُ الَّذِينَ نَسُوهُ مِن قَبْلُ قَدْ جَاءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ فَهَل لَّنَا مِن شُفَعَاءَ فَيَشْفَعُوا لَنَا أَوْ نُرَدُّ فَنَعْمَلَ غَيْرَ الَّذِي كُنَّا نَعْمَلُ ۚ قَدْ خَسِرُوا أَنفُسَهُمْ وَضَلَّ عَنْهُم مَّا كَانُوا يَفْتَرُونَ
کیا وہ لوگ قیامت کے صرف آجانے کا انتظار (37) کر رہے ہیں، جس دن وہ آجائے گی اس دن وہ لوگ جنہوں نے اسے پہلے سے بھلا رکھا تھا، کہیں گے کہ ہمارے رب کے انبیاء سچی بات لے کر آئے تھے پس اب کیا کچھ لوگ ہمارے سفارشی ہیں جو ہمارے لیے سفارش کریں، یا ہم دنیا میں لوٹا دئیے جائیں تاکہ ہم جو کچھ پہلے کرتے رہے تھے، اس کے بجائے نیک عمل کریں، انہوں نے اپنے آپ کو خسارہ میں ڈال دیا، اور ان کی افترا پردازیاں ان کے کام نہ آئیں
[٥٢] اہل دوزخ کی دوبارہ دنیا میں آنے کی درخواست اور اس کا جواب :۔ تاویل سے مراد کسی خبر کا مصداق یا اس کے واقع ہونے کا وقت ہے اور یہاں مراد قیامت کا واقع ہونا ہے یعنی جب قیامت واقع ہوجائے گی تو اس وقت کافر کہیں گے کہ وہ بات تو سچ نکلی جو رسول کہا کرتے تھے۔ اب کیا کیا جائے؟ اب تو ہمیں یقیناً سزا ملے گی پہلے وہ عذاب سے بچاؤ کے لیے کوئی سفارشی دیکھیں گے جب وہ نہ ملے گا تو دنیا میں دوبارہ آنے اور دوبارہ امتحان دینے کی درخواست کریں گے اور کہیں گے کہ اب کی بار ہم یقیناً اللہ کے فرمانبردار بن کے رہیں گے اور یقیناً اس امتحان میں کامیاب اتریں گے۔ اللہ نے اس مقام پر ان کی اس درخواست کا جواب ذکر نہیں فرمایا تاہم بعض دوسرے مقامات پر انہیں دو طرح کے جواب دیئے گئے ہیں۔ ایک یہ کہ جب انہوں نے حقیقت کا مشاہدہ کرلیا اور غیب کے پردے اٹھ گئے تو پھر اب ایمان کیسا اور فرمانبرداری کیسی؟ کیونکہ ایمان کی صفت ہی غیب پر ایمان لانا ہے اور آنکھوں دیکھی چیزوں پر تو کافر بھی یقین کرلیتے ہیں لہٰذا اس وقت ایمان لانے کا کچھ مطلب ہی نہیں اور نہ ایسا ایمان کچھ فائدہ ہی دے سکتا ہے اور دوسرا جواب یہ دیا گیا کہ اگر انہیں دوبارہ دنیا میں بھیج بھی دیا جائے تو یہ بدبخت دنیا کی رنگینیوں میں پھر بھی ایسے ہی محو ہوجائیں گے اور اسی طرح کے نافرمان بن جائیں گے جیسے پہلے تھے اور انہیں یہ وعدہ یاد تک نہ رہے گا جیسے دنیا میں جو کچھ یہ لوگ باتیں بنایا کرتے تھے آج انہیں ان میں سے کچھ یاد نہیں پڑتا۔ اسی طرح دوبارہ دنیا میں جا کر اس وقت کے وعدہ کو بھی بھول جائیں گے۔