سورة الاعراف - آیت 34

وَلِكُلِّ أُمَّةٍ أَجَلٌ ۖ فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً ۖ وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور ہر گروہ کی (اللہ کے علم میں) ایک میعاد متعین (24) ہے، جب ان کا وہ وقت آجاتا ہے تو ایک گھڑی نہ پیچھے ہوتے ہیں نہ آگے

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

اجل جب آگئی تو پیچھے یا آگے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اس کی مثال یوں سمجھیے کہ جیسے کوئی گاہک کسی دوکاندار سے کسی چیز کی قیمت پوچھنے کے بعد کہتا ہے کہ کوئی کمی بیشی، دوکاندار کہتا ہے قیمت تو میں نے پہلے ہی ٹھیک بتائی ہے کوئی کمی بیشی نہیں ہوسکتی، گفتگو میں گاہک اور دوکاندار دونوں کا لفظ کمی بیشی سے مراد صرف کمی ہوتا ہے بیشی نہیں ہوتا، اسی طرح یہاں بھی جب کسی کی موت کا وقت آجاتا ہے تو پھر قطعاً تاخیر نہیں ہوسکتی، اللہ تعالیٰ نے ہر قوم کے عروج و زوال کا ایک ضابطہ مقرر کر رکھا ہے اس حقیقت کو اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا کہ جب کسی قوم کے گناہوں کا ڈول بھر جاتا ہے تو یہی وقت اس کی تباہی کا وقت ہوتا ہے اور اس کا تعلق مدت یا عرصے سے نہیں بلکہ فساد فی الارض سے ہوتا ہے۔ اقبال کا شعر ہے: میں تجھ کو بتاتاہوں کہ تقدیر اُمم کیا ہے شمشیر و سناں اوّل طاؤس و رباب آخر