يَا بَنِي آدَمَ قَدْ أَنزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَارِي سَوْآتِكُمْ وَرِيشًا ۖ وَلِبَاسُ التَّقْوَىٰ ذَٰلِكَ خَيْرٌ ۚ ذَٰلِكَ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ
اے آدم کے بیٹو ! ہم نے تمہارے لیے لباس (15) اتارا ہے جو تمہاری شرمگاہوں کو پردہ کرتا ہے اور وسیلہ زینت بھی ہے اور پرہیزگاری کا لباس ہی بہترین ہے۔ یہ لباس اللہ کی نشانیوں میں سے ہے، تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں
لباس کا بنیادی مقصد اور طبعی فوائد: یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنا احسان یاد دلایا ہے کہ اس نے لباس اتارا اور ریش بھی۔ لباس سے انسان اپنا ستر ڈھانپتا ہے۔ اور ریش وہ جو بطور زینت، رونق و جمال کے لیے پہنا جائے، اللہ تعالیٰ نے لباس کے دو فائدے بتائے۔ (۱) طبعی فائدہ۔ (۲)اخلاقی فائدہ۔ طبعی فائدہ: لباس انسان کے لیے زینت ہے یہ سردی گرمی کے موسمی اثرات سے بھی بچاتا ہے اور اخلاقی فائدہ سے مراد: جسم کے وہ حصے جنھیں چھپانا ضروری ہے یعنی ستر ڈھانپنا ہے۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما سے روایت، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے جو شخص نیا کپڑا لینے اور اس کے گلے تک پہنچتے ہی یہ دعا پڑھے (اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ کَسَانِیْ مَا اُوَارِیْ بِہِ عَوْرَتِی وَاَتَجَمَّلُ بِہِ فِی حِیَاتِی) پھر پرانا کپڑا اللہ کی راہ میں دے دے، تو وہ اللہ کے ذمہ میں، اللہ کی پناہ میں اور اللہ کی حفاظت میں آجاتا ہے، زندگی میں بھی اور بعد از مرگ بھی۔(ترمذی: ۳۵۶۰) تقویٰ کا لباس: (۱) اس کا مطلب یہ ہے کہ لباس پردہ پوشی کرے، ایسا لباس نہ ہو جس کے پہننے کے بعد بھی جسم کی سلوٹیں اور مقام ستر سب کچھ نظر آتا ہو۔ (۲)لباس فاخرانہ اور متکبرانہ نہ ہو۔ اور نہ اپنی حیثیت سے کم درجہ اور گندہ ہو۔ (۳) ایسا لباس نہ ہو جسے پہن کر مرد عورتوں جیسا اور عورتیں مردوں جیسا بننے کی کوشش کریں۔ (۴) کسی حاکم یا سر آبرورہ قوم کا لباس استعمال نہ کریں جس کی وجہ سے تمہارا قومی تشخص مجروح ہو۔ ایسا لباس استعمال کرنے سے ذہنی مرعوبیت کی دلیل ہوگی۔ (۵) مرد ریشمی لباس نہ پہنیں۔ ابن جریر کا قول ہے ’’لباس تقویٰ ایمان ہے، ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں عمل صالح ہیں اور اسی سے ہنس مکھ ہوتا ہے۔‘‘ عبدالرحمٰن رحمہ اللہ کہتے ہیں اللہ کے ڈر سے اپنی ستر پوشی کرنا تقویٰ ہے۔ یہ سب اقوال ایک دوسرے سے ملے جلے ہیں۔