فَدَلَّاهُمَا بِغُرُورٍ ۚ فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَةَ بَدَتْ لَهُمَا سَوْآتُهُمَا وَطَفِقَا يَخْصِفَانِ عَلَيْهِمَا مِن وَرَقِ الْجَنَّةِ ۖ وَنَادَاهُمَا رَبُّهُمَا أَلَمْ أَنْهَكُمَا عَن تِلْكُمَا الشَّجَرَةِ وَأَقُل لَّكُمَا إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمَا عَدُوٌّ مُّبِينٌ
چنانچہ اس نے دونوں کو دھوکہ (13) دے کر اپنے جال میں پھانس لیا، پس جب دونوں نے اس درخت کو چکھا تو ان کی شرمگاہیں دکھائی دینے لگیں اور دونوں اپنے جسم پر جنت کے پتے چسپاں کرنے لگے، اور ان دونوں کے رب نے انہیں پکارا کہ کیا میں نے تمہیں اس درخت سے نہیں روکا تھا، اور کہا نہیں تھا کہ بے شک شیطان تم دونوں کا کھلا ہوا دشمن ہے
شیطان نے ان دونوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالا اورسبز باغ دکھائے تو فوراً سیدنا آدم و حوا علیہ السلام اس درخت کا پھل کھانے پر تیار نہیں ہوئے،بلکہ وہ مدتوں ان باتوں کی یقین دہانی کراتا رہا کہ اگر تم نے یہ پھل کھالیا تو تم فرشتے کے درجے پر پہنچ جاؤ گے ہمیشہ کی زندگی پاؤ گے۔ آدم شیطان کے دام میں کیسے پھنس گئے: آدم اور حوا دونوں عیش و آرام سے جنت میں رہ رہے تھے۔ اور انھیں درخت کے پاس آنے کا کبھی خیال نہیں آیاتھا حتیٰ کہ اللہ کا یہ حکم انھیں بھول ہی گیا۔ اس وقت شیطان کو اس نافرمانی پر اکسانے کا موقع مل گیا جیسا کہ قرآن کریم کی آیت سے واضح ہے۔ (وَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَہُ عَزْمًا ) پھر آدم علیہ السلام اللہ کا حکم بھول گئے اور ہم نے اس میں نافرمانی کا کوئی ارادہ نہ پایا۔ دراصل یہ اللہ کی معصیت کا اثر ظاہر ہوا جو آدم و حوا سے غیر شعوری اور غیر ارادہ طور پر ہوئی، پھر دونوں مارے شرم کے جنت کے پتے جوڑ جوڑ کر اپنی شرم گاہ چھپانے لگے، اس سے پہلے انھیں اللہ کی طرف سے ایسا نورانی لباس ملا ہوا تھا جواگرچہ غیر مرئی تھا لیکن یک دوسرے کی شرمگاہ کے لیے ساتر (پردہ پوش) تھا۔ ابن کثیر ۔ حیااور مقام ستر کو ڈھانپنا انسانی فطرت میں داخل ہے: پھل کھانے کے بعد آدم علیہ السلام اور حوا کا جنتی لباس چھن گیا تو سب سے پہلے انھیں مقامات ستر کو چھپانے کی فکر ہوئی تو فوری طور پر جنت کے درختوں کے پتوں سے اپنے ستر کو چھپایا۔ یہاں ان کے پروردگار نے پکارا کہ باوجود تنبیہ کے تم شیطان کے وسوسوں کا شکار ہوگئے۔ اس سے معلوم ہوا کہ شیطان کے جال بڑے حسین اور دلفریب ہوتے ہیں اور جن سے بچنے کے لیے بڑی کوشش و محنت اور ہر وقت چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔