قَالَ اخْرُجْ مِنْهَا مَذْءُومًا مَّدْحُورًا ۖ لَّمَن تَبِعَكَ مِنْهُمْ لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنكُمْ أَجْمَعِينَ
اللہ نے کہا تو یہاں سے حقیر اور پھٹکارا ہوا بن کر نکل جا (11) اور یقین رکھ کہ ان میں سے جو بھی تیری پیروی کرے گا تو میں جہنم کو تم سب سے پھر دوں گا
ابلیس کو تو اللہ تعالیٰ نے جنت سے نکال دیا، اور آدم کے بعد اسکی بیوی کو پیدا کرکے ان دونوں سے فرمایا ’’کہ یہ جنت تمہارا مسکن ہے یہاں سے جو چاہو اور جتنا چاہو کھاؤ پیؤ، البتہ اس ایک درخت کے قریب نہ پھٹکنا۔‘‘ یہ درخت کونسا تھا اسکی حقیقت جاننے کی ضرورت نہیں، اس حکم سے مقصو د حضرت آدم و حوّا کی آزمائش تھی کہ وہ کہاں تک اللہ کا یہ حکم بجا لاتے ہیں اور شیطان جو اپنی چھاتی پر ہاتھ مار کر کہتا تھا کہ میں آدم اور اس کی اولاد کو گمراہ کرکے چھوڑوں گا، کیا یہ اس کی چالوں میں آتے ہیں یا نہیں۔