قَالَ مَا مَنَعَكَ أَلَّا تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُكَ ۖ قَالَ أَنَا خَيْرٌ مِّنْهُ خَلَقْتَنِي مِن نَّارٍ وَخَلَقْتَهُ مِن طِينٍ
اللہ نے کہا کہ جب میں تجھے حکم دیا تھا تو سجدہ کرنے سے کس چیز نے تجھے روک دیا؟ اس نے کہا، میں اس سے بہتر ہوں مجھے تو نے آگ سے پیدا کیا ہے اور اسے مٹی سے پیدا کیا ہے
عذر گناہ بد تراز گناہ: ابلیس کا گمان تھا کہ آگ مٹی سے افضل ہے اور افضل کا ادنیٰ کے سامنے جھکنے کا حکم نہیں دیا جاسکتا وہ ملعون اصل عنصر کو دیکھتا ہے اور فضیلت کو بھول جاتا ہے کہ مٹی والے کو اللہ عزوّجل نے اپنے ہاتھ سے بنایا اور اپنی روح اس میں پھونکی ہے اس خیال فاسد کی وجہ سے وہ اللہ کی تمام رحمتوں اور نعمتوں سے محروم ہوگیا۔ مٹی اور آگ کے اوصاف کا تقابل: آگ لطیف ہوتی ہے، نیچے سے اوپر کو اٹھتی ہے۔ آگ اپنی شکل اور رنگ بدل سکتی ہے آگ ہر چیز کو جلا کر فنا کردیتی ہے آگ کی طبیعت میں سرکشی ہے اسی فطرت کی بنا پر ابلیس نے اللہ کی نافرمانی اور تکبّر کی راہ اختیار کی اور راندہ درگاہ الٰہی بن گیا۔ مٹی: (۱) مٹی کثیف یعنی بھاری ہوتی ہے ۔ (۲)مٹی اوپر سے نیچے کو گرتی ہے۔ (۳) مٹی کی شکل کو محنت کے بغیر تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ (۴) مٹی کی طبیعت میں انکساری ہوتی اور تواضح ہوتی ہے اس میں ہر طرح کے نباتات پھل، غلے اور درخت پیدا ہوتے ہیں۔ آدم علیہ السلام سے اللہ کی نافرمانی ہوگئی تو اُس نے گناہ کی معافی مانگ لی اور اللہ کے مقرب بن گئے۔