وَقَالُوا هَٰذِهِ أَنْعَامٌ وَحَرْثٌ حِجْرٌ لَّا يَطْعَمُهَا إِلَّا مَن نَّشَاءُ بِزَعْمِهِمْ وَأَنْعَامٌ حُرِّمَتْ ظُهُورُهَا وَأَنْعَامٌ لَّا يَذْكُرُونَ اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهَا افْتِرَاءً عَلَيْهِ ۚ سَيَجْزِيهِم بِمَا كَانُوا يَفْتَرُونَ
اور کہتے ہیں کہ یہ چوپائے اور کھیتیاں (138) (بتوں کے لیے) مخصوص ہیں، وہ اپنے زعم باطل کے مطابق کہتے ہیں کہ انہٰں وہی کھائے گا جسے ہم چاہیں گے، اور کچھ جانوروں کے بارے میں کہتے ہیں کہ ان پر سواری یا بار برداری حرام کردی گئی ہے، اور کچھ جانور ایسے ہیں جنہیں ذبح کرتے وقت وہ اللہ کا نام نہیں لیتے ہیں، یہ سب اللہ کے بارے میں افترا پردازی ہے، عنقریب اللہ انہٰں ان کی تمام افترا پردازیوں کی سزا دے گا
مشرکوں کی اپنی وضع کردہ شریعت: اس آیت میں مشرکین کی جاہلی شریعت کی تین باتیں اور بتائی ہیں۔ (۱)مشرکین کا دستور تھا کہ جس کھیتی یا مویشی کے متعلق وہ یہ منت مان لیتے کہ وہ فلاں بُت، فلاں دربار یا فلاں حضرت کے لیے مخصوص ہے یہ نیاز ہر کوئی نہیں کھا سکتا تھا۔ ایک فہرست بنا رکھی تھی کہ اس قسم کی نذرہو تو فلاں کھائے گا اور فلاں قسم کی ہو تو فلاں فلاں کھائے گا۔ (۲) جن مویشیوں کو بُتوں یاد رباروں کی نظر کیا جاتا ان پر سواری کرنا حرام تھی حتیٰ کہ حج کے سفر میں بھی سواری ممنوع تھی۔ (۳)ان جانوروں کو ذبح کرتے ہوئے وہ صرف اپنے بتوں کا نام لیتے، ان پر اللہ کا نام لینا ممنوع تھا۔ دودھ دوہتے وقت، سواری کرتے وقت، ذبح کرتے اور کھاتے وقت غرض کسی وقت بھی ان پر اللہ کا نام لینا ممنوع تھا۔ تاکہ ان کے معبود کی نذر و نیاز میں اللہ کی شراکت نہ ہونے پائے۔ یہ ساری صورتیں گھڑی ہوئی تو ان کی اپنی تھیں لیکن وہ اللہ پر افترا باندھتے اور یہ باور کراتے کہ ہم یہ سب کچھ اللہ کے حکم سے ہی کررہے ہیں۔