وَإِن تُطِعْ أَكْثَرَ مَن فِي الْأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ ۚ إِن يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَخْرُصُونَ
اور اگر آپ ان لوگوں کی بات مانیں گے جن کی زمین میں اکثریت (113) ہے، تو وہ آپ کو اللہ کی راہ سے بھٹکا دیں گے وہ لوگ محض گمان کی پیروی کرتے ہیں، اور بالکل جھوٹی باتیں کرتے ہیں
قرآن کریم کی اس بیان کردہ حقیقت اور تاریخ کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے کہ اہل عقل ذہین اور با اصول لوگ کم ہی ہوا کرتے ہیں جیسا کہ قرآن پاک کی سورۃ یوسف: 103میں ہے۔ آپ کی خواہش کے باوجود اکثر لوگ ایمان والے نہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ حق و صداقت پر چلنے والے لوگ ہمیشہ تھوڑے ہی ہوتے ہیں۔ اس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ حق و باطل کا معیار دلائل پر ہے لوگوں کی اکثریت و اقلیت پر نہیں ۔ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر ایسی اکثریت کو جاہل، فاسق، ظالم اور مشرک قرار دیا ہے۔ ان کے عقائد اور ان کے اعمال سب کچھ وہم و قیاس پر مبنی ہوتے ہیں۔ اس لیے آپ کو اور مسلمانوں کو ان کے کہنے پر چلنے سے روک دیا گیا ہے۔ جس کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ’’ میری اُمت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی جن میں سے صرف ایک فرقہ جنتی ہوگا باقی سب جہنمی۔ اور اس فرقے کی نشانی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بیان فرمائی جو ( مَا اَنَا عَلَیْہِ وَاَصْحَابِی) یعنی میرے اور میرے صحابہ کے طریقے پر چلنے والا ہوگا۔ (ترمذی: ۲۶۴۱)