وَتِلْكَ حُجَّتُنَا آتَيْنَاهَا إِبْرَاهِيمَ عَلَىٰ قَوْمِهِ ۚ نَرْفَعُ دَرَجَاتٍ مَّن نَّشَاءُ ۗ إِنَّ رَبَّكَ حَكِيمٌ عَلِيمٌ
اور یہ تھی ہماری حجت (79) جو ہم نے ابراہیم کو ان کی قوم کے مقابلہ میں دی تھی، ہم جس کے چاہتے ہیں درجات بڑھا دیتے ہیں، بے شک آپ کا رب بڑی حکمتوں والا، سب کچھ جاننے والا ہے
ابراہیم نے اللہ کی حقیقت قوم کے سامنے رکھی کہ ہر چیز کا مالک و خالق اللہ تعالیٰ ہے اور ہر چیز پر تصرف و اختیار بھی اُسی کا ہونا چاہیے۔ دوسرا چاند، سورج، ستارے سب ڈوب جاتے ہیں اس لیے وہ رب نہیں ہوسکتے اور یہی سچی دلیل ہے۔ سورة الشعرآء ۷۵ سے ۸۲ میں فرمایا: جنھیں تم پوج رہے ہو تم اور تمھارے اگلے باپ دادا، وہ سب میرے دشمن ہیں بجز سچے اللہ کے جو تمام جہان کا پالنہار ہے، دلیل دی كہ میں رب العالمین کے سوا سب سے بے زار ہوں۔ جس نے مجھے پیدا کیا دلیل دی میں رب العالمین کے سوا سب سے بیزار ہوں۔ (۱) جس نے مجھے پیدا کیا پھر وہ میری راہنمائی کرتا ہے۔ (۲) وہ جو مجھے کھلاتا پلاتا ہے۔ (۳) میرے وجود پر اُسی کا اختیار ہے۔ (۴) وہ مجھے مار ڈالے گا پھر زندہ کرے گا۔ (۵) جس سے میں طمع رکھتا ہوں جو روز جزا کو مجھے معاف کرے گا اور جن کی تم عبادت کرتے ہو وہ کیا کرتے ہیں زندگی دیتے ہیں، موت دیتے ہیں، رزق دیتے ہیں۔ ہم درجات بلند کرتے ہیں: جس کے چاہیں ابراہیم کے مشاہدہ حق مشرک قوم کے سامنے دلائل کی وجہ سے اللہ نے ان کا درجہ بلند کر دیا دلیل جو ایک داعی کے لیے بہت ضروری ہے۔ قوم کے سامنے رکھنے سے اللہ نے ان کا درجہ بلند کردیا، دلیل حجت بن جاتی ہے انفرمیشن ابتدائی درجہ ہے۔ جب انسان آگے جاتا ہے پھر اُسے یقین ملتا ہے اللہ علم بھی رکھتا ہے صحیح فیصلے بھی کرتا ہے درجات بھی بلند کرتا ہے۔