وَإِذَا رَأَيْتَ الَّذِينَ يَخُوضُونَ فِي آيَاتِنَا فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتَّىٰ يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ ۚ وَإِمَّا يُنسِيَنَّكَ الشَّيْطَانُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرَىٰ مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ
اور جب آپ ان لوگوں کو دیکھئے جو ہماری آیتوں کے خلاف باتیں (62) بناتے ہیں، تو آپ ان سے اعراض کیجئے، یہاں تک کہ وہ اس کے علاوہ کوئی اور بات کرنے لگیں، اور اگر شیطان آپ کو بھلادے تو یاد آنے کے بعد ظالم لوگوں کے ساتھ نہ بیٹھئے
اس آیت میں خطاب اگرچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے مگر مخاطب اُمت مسلمہ کا ہر فرد ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا تاکیدی حکم ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَلَا تَقْعُدُوْا مَعَهُمْ حَتّٰى يَخُوْضُوْا فِيْ حَدِيْثٍ غَيْرِهٖ﴾ (النساء: ۱۴۰) جو لوگ ہماری آیات میں کج بحثیاں کرتے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے الگ رہیے یہاں تک کہ وہ کسی دوسری بات میں لگ جائیں اور اگر کبھی شیطان آپ کو یہ بات بھلا دے تو یاد آنے کے بعد ایسے ظالموں کے ساتھ مت بیٹھو۔ یعنی جو لوگ ایسی مجالس میں بیٹھیں جہاں اعلانیہ اللہ کی آیات کا مذاق اڑایا جارہا ہو۔ یا سِرے سے انکار ہی کیا جارہا ہو اور وہ ایسی باتیں ٹھنڈے دل سے سن کر وہیں بیٹھے رہیں اور انکی غیر ت ایمانی میں ذرا بھی حرکت نہ ہو تو ان میں اور کافروں میں کوئی فرق نہیں رہتا۔ ایسی صورت میں ایک مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ اپنی ناراضگی کا اظہار کردے، ان کی زبانیں بند کردے، دلائل سے انھیں حق بات کا قائل کرے اور اگر یہ دونوں کام نہیں کرسکتا تو خود وہاں سے اٹھ جائے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم میں سے جو کوئی بُرا کام (خلاف شرع)ہوتا ہوا دیکھے تو اُسے چاہیے کہ بزور بازو اُسے مٹا دے اور اگر وہ ایسا نہیں کرسکتا تو زبان سے ہی منع کردے اور اگر اتنی بھی طاقت نہ ہو تو کم از کم دل میں ہی اُسے بُرا سمجھے اور یہ ایمان کا کمزور تر درجہ ہے۔ (مسلم: ۴۹) دوسری روایت میں ہے کہ ’’اگر دل میں بھی بُرا نہ سمجھے تو اس میں رائی برابر بھی ایمان نہیں۔‘‘