قُلْ إِنِّي عَلَىٰ بَيِّنَةٍ مِّن رَّبِّي وَكَذَّبْتُم بِهِ ۚ مَا عِندِي مَا تَسْتَعْجِلُونَ بِهِ ۚ إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ ۖ يَقُصُّ الْحَقَّ ۖ وَهُوَ خَيْرُ الْفَاصِلِينَ
آپ کہئے کہ مجھے میرے رب کی جانب سے ایک کھلی دلیل (55) ملی ہوئی ہے، اور تم اسے جھٹلاتے ہو، تم جس (عذاب) کے لیے جلدی کر رہے ہو وہ میرے پاس نہیں ہے، اللہ کے علاوہ کسی کے ہاتھ میں فیصلہ نہیں ہے، وہ حق بات بیان کرتا ہے، اور وہ سب سے اچھا فیصلہ کرنے والا ہے
اس آیت میں اللہ نے ہر انسان کو اپنے اندر جھانکنے پر مجبور کردیا ہے۔ دلیل روشن اللہ کا کلام، اللہ کی ذات اور اللہ کی بادشاہت کا ذکر ہے اور مجھے اس کلام اور اس کے بھیجنے والے پر کچھ شک نہیں پورا یقین ہے میں نے حق کو پالیا ہے اب میں کسی اور طرف پھرنے والا نہیں ہوں۔ اگر تم سچے ہو: مجرموں یا ہٹ دھرموں کی ایک اور صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ کفار مکہ یہ کہتے تھے کہ اگر تم سچے ہو تو تم اور تمہارے ساتھی بے بسی اور درماندگی کی حالت میں کیوں ہو جس طرح ہم تم پر سختیاں کرتے ہیں اگر تم سچے ہو تو اب تک ہم پر وہ عذاب آجانا چاہیے تھا جسکی تم ہمیں دھمکیاں دیتے ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب یہ دیا کہ آپ ان سے کہہ دیجئے میں ٹھیک ٹھیک راہ راست پر جارہا ہوں جو اللہ نے میری طرف وحی کیا ہے عذاب لانا میرے اختیار میں نہیں یہ اللہ کا کام ہے جب وہ ہمارے اور تمہارے درمیان فیصلہ کرنا چاہے گا تو تمہیں ایسے عذاب سے دوچار کردے گا۔ آیت میں بتایا گیا ہے کہ نبی دلیل روشن پر ہوتا ہے۔ اور دوسروں کو دلیل روشن پر دعوت دیتا ہے دلیل روشن جو اللہ نے وحی کی وہی لوگوں تک پہنچانی ہے۔ اللہ اور اس کے رسول کی بات آگے رکھنی ہے کسی اور کی بات کو نہیں ۔امام غزالی نے چوراسی لیکچر دیے بغداد آئے بیس سال شک میں گزار دیے۔ حقیقت کی معرفت ملی پھر وہ حجة الاسلام کہلائے، نفس کی بات کو کسی اور کی بات کو آگے نہیں رکھنا، تاریخ گواہ ہے کہ جب کسی نے اللہ اور نبی کی بات سے کسی کو آگے رکھا وہ گمراہ ہوا۔ نبی کی ذات کی گواہی کتنی بڑی ہے کہ آپ اپنی مرضی سے لب کشائی نہیں کرتے آپ وہ کہتے ہیں جو رب کہتا ہے: اسی لیے رسول اللہ کو روشن چراغ کہا گیا ہے۔ کلام پر غوروفکر کرنے سے انسان دلیل روشن پر آجاتا ہے۔