قُلْ أَرَأَيْتَكُمْ إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ بَغْتَةً أَوْ جَهْرَةً هَلْ يُهْلَكُ إِلَّا الْقَوْمُ الظَّالِمُونَ
آپ کہیے تمہارا کیا خیال ہے، اگر اللہ کا عذاب تم پر اچانک (47) یا کھلے عام آجائے، تو کیا ظالم قوم کے علاوہ کوئی اور ہلاک کیا جائے گا
اللہ کا عذاب اچانک آجائے: اس سے مراد ایسا عذاب ہے جس کی علامات پہلے سے ظاہر نہ ہوں۔ اعلانیہ عذاب: سے مراد وہ عذاب ہے جس کی علامات پہلے سے ظاہر ہونا شروع ہوجائیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿قُلْ اَرَءَيْتُمْ اِنْ اَتٰىكُمْ عَذَابُهٗ بَيَاتًا اَوْ نَهَارًا ﴾ (یونس: ۵۰) ’’کہہ دے کہ کیا تم نے دیکھا اگر تم پر اس کا عذاب دن کو آجائے یا رات کو۔‘‘ کیا ظالموں کے سوا کوئی اور بھی ہلاک ہوگا: اس جملہ کے کئی مطلب ہیں۔ (۱) عذاب آنے کی اطلاع اللہ تعالیٰ انبیاء کو بذریعہ وحی دیتا ہے اور انھیں ہدایت دیتا ہے کہ اپنے پیروکاروں کولیکر وہاں سے نکل جائیں جہاں عذاب آنے والا ہے۔ (۲) چونکہ عذاب ظالموں کی وجہ سے ہی آتا ہے لہٰذا ظالموں کو چاہیے کہ بلا تاخیر تو بہ کرلیں۔ خود بھی عذاب الٰہی سے بچ جائیں اور دوسروں کی ہلاکت کا بھی سبب نہ بنیں۔ (۳) اللہ کی ہلاکت اور تباہی تو ظالموں کے لیے ہی ہے۔ مرنے کے بعد بھی انھیں دوزخ کا عذاب بھگتنا پڑے گا۔ صالح لوگ تو موت کے بعد اللہ کے فضل و کرم کے اور زیادہ حقدار بن جائیں گے۔