قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَخَذَ اللَّهُ سَمْعَكُمْ وَأَبْصَارَكُمْ وَخَتَمَ عَلَىٰ قُلُوبِكُم مَّنْ إِلَٰهٌ غَيْرُ اللَّهِ يَأْتِيكُم بِهِ ۗ انظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الْآيَاتِ ثُمَّ هُمْ يَصْدِفُونَ
آپ پوچھئے تمہارا کیا خیال (46) ہے، اگر اللہ تمہارے کان اور تمہاری آنکھیں لے لے، اور تمہارے دلوں پر مہر لگا دے، تو کیا اللہ کے علاوہ کوئی معبود ہے جو وہ چیزیں تمہیں دوبارہ عطا کردے، آپ دیکھ لیجئے کہ ہم نشانیوں کو کس طرح مختلف انداز میں پیش کرتے ہیں، لیکن وہ پھر بھی اعراض سے ہی کام لیتے ہیں
آنکھ، کان اور دل اللہ کی آیات کیسے ہیں: اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی تین نعمتوں کا ذکر کے ان کو اپنی نشانیاں قرار دیا ہے۔ (۱)سماعت۔ (۲)آنکھ۔ (۳)دل۔ کان، یعنی سماعت، حق بات سننے کے لیے دیے۔ آنکھیں دیں کہ غور سے دیکھے، دل کا نظام قوت تمیز، عقل ارادہ اور اختیار سب دل کے تابع ہیں، کسی بات کا سوچنا، تدبیر کرنا، فیصلہ کرنا سب اسی کے کام ہیں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اگر اللہ تعالیٰ سماعت، بصارت اور دل کے عمل کے نظام کو سلب کرلے تو کیا مشرکوں کے کسی الٰہ میں یہ طاقت ہے کہ وہ اس نظام کو بحال کردے؟ دوسرا پہلو یہ ہے کہ انسان نے جتنے بھی کمالات حاصل کیے، مثلاً ایجادات، علم و فلسفہ، انسان کی خوشحالی وغیرہ جن پر انسان پھولا نہیں سماتا وہ سب اللہ کی ان عطا کی ہوئی نعمتوں کا ہی نتیجہ ہے اور اگر اللہ اپنی دی ہوئی چیزوں کو واپس لے لے تو ان کے الٰہ میں ایسی قدرت ہے کہ وہ ان چیزوں کو بحال کردے، اور اگر وہ ایسا نہیں کر سکتے تو اللہ کے کاموں میں شریک کیسے ہوئے۔