قُلْ أَرَأَيْتَكُمْ إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ أَغَيْرَ اللَّهِ تَدْعُونَ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ
آپ کہیے تمہارا کیا خیال ہے، اگر تم پر اللہ کا عذاب (43) آجائے، یا قیامت ہی آجائے، تو اگر تم سچے ہو تو کیا غیر اللہ کو ہی پکارتے رہو گے
مشرکین مکہ مصیبت کے وقت اور بالخصوص جب ان کا جہاز طوفان کی زد میں آجاتا تو اپنے معبودوں کو پکارنا شروع کردیتے تھے پھر جب وہ مصیبت ٹلتی نظر نہ آتی اور موت سامنے کھڑی نظر آتی تو کہتے کہ اب صرف ایک اللہ ہی کو پکارو۔ ان کی اسی عادت کا ذکر ان آیات میں کیا گیا ہے۔ عکرمہ بن ابوجہل کا اسلام لانا: فتح مکہ کے بعد عکرمہ بن ابوجہل اس خیال سے مکہ سے بھاگ کھڑے ہوئے کہ مفتوحین سے پتہ نہیں کیسا سلوک کیا جائے گا جدہ پہنچ کر کشتی میں سوار ہوئے اور حبشہ کی راہ لی کشتی طوفان میں گھر گئی تو مشرکین نے عادت کے مطابق دیوتاؤں کو پکارنا شروع کردیا۔ طوفان بڑھتا ہی گیا اور ایسا محسوس ہوتا تھا کہ کشتی ڈوبی کہ ڈوبی۔ مصیبت میں صرف اللہ ہی کام آتا ہے: اس وقت مشرک کہنے لگے کہ اب صرف اللہ کو پکارو، وہی ہمیں اس مصیبت اور موت سے نجات دے سکتا ہے۔ یہ جملہ سن کر عکرمہ کی آنکھیں کھل گئیں وہ سوچنے لگا کہ اگر سمندر میں مصیبت کے وقت اللہ کام آتا ہے تو خشکی میں بھی تو اللہ ہی کام آتا ہوگا، وہ سوچنے لگا کہ بیس سال ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی بات پر لڑتے رہے کہ مصیبت میں کام آنے والا صرف اللہ ہے تمہارے معبود نہیں۔ یہ نہ تمہارا کچھ بگاڑ سکتے ہیں نہ سنوار کرسکتے ہیں۔ چنانچہ اس نے عہد کیا کہ اگر آج زندگی بچ گئی تو سیدھا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاکر ان کی بیعت کرلونگا۔ اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ طوفان تھم گیا لوگوں کی زندگیاں بچ گئیں عکرمہ واپس آگئے اور اسلام قبول کرلیا اور باقی عمر خدمت اسلام میں صرف کردی۔