سورة الانعام - آیت 32

وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا لَعِبٌ وَلَهْوٌ ۖ وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِّلَّذِينَ يَتَّقُونَ ۗ أَفَلَا تَعْقِلُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور دنیا کی زندگی کھیل اور تماشہ (35) سے زیادہ کچھ نہیں، اور جو لوگ اللہ سے ڈرتے ہیں ان کے لیے آخرت کی زندگی سب سے بہتر ہے، تو کیا تم لوگ عقل و خرد سے کام نہیں لیتے ہو

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

دنیا کھیل تماشا کس لحاظ سے ہے: اس کا یہ مطلب نہیں کہ دنیا کی زندگی میں سرے سے کوئی سنجیدگی ہے ہی نہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آخرت کی حقیقی اور پائیدار زندگی کے مقابلہ میں ایسے ہے جیسے کوئی شخص کچھ دیر کھیل، تفریح میں دل بہلا کر پھر اپنے اصل کام کی طرف توجہ متوجہ ہوجائے۔ دنیا میں بسنے والوں کی اکثریت اس کی رنگینیوں میں ہی کھوجاتی ہے۔ آخرت کا گھر بہتر ہے: جو اس زندگی کو اللہ کی عطا سمجھتے ہیں، آخرت پر ایمان رکھتے ہیں وہ ہر عمل کرتے ہوئے رب کو اپنے آگے محسوس کریں، انھیں کے لیے آخرت کی زندگی ہے بے خوف ہونے کی قیمت آگ ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ﴾ (المومنون: ۱) کامیابی پالی ایمان لانے والوں نے، جو پاکیزگی کا کام کرتے ہیں، وہ جو زیادتی نہیں کرتے، امانتوں کی پاسداری کرتے ہیں یہی لوگ فردوس کو ورثہ میں پائیں گے وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے، باحیا ہوں گے، نماز کی پابندی کریں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ کیا تم کچھ بھی نہیں سوچتے یعنی اگر آج نیکی کے لیے کوشش نہیں کی تو کل انجام کیسے اچھا ہوگا۔