سورة الانعام - آیت 8

وَقَالُوا لَوْلَا أُنزِلَ عَلَيْهِ مَلَكٌ ۖ وَلَوْ أَنزَلْنَا مَلَكًا لَّقُضِيَ الْأَمْرُ ثُمَّ لَا يُنظَرُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور کافروں نے کہا کہ اس پر کوئی فرشتہ (10) کیوں نہیں اتارا گیا (جو اس کی نبوت کی شہادت دیتا) اور اگر ہم فرشتہ اتار دیتے تو معاملے کا فیصلہ ہوجاتا، پھر انہیں مہلت نہیں دی جاتی (یعنی انہیں ہلاک کردیا جاتا)

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت و راہنمائی کے لیے جتنے بھی انبیاء و رُسل بھیجے وہ انسانوں میں سے ہی تھے اور ہر قوم میں اسی کے فرد کو وحی و رسالت سے نوازا جاتا تھا یہ اس لیے کہ اس کے بغیر کوئی رسول فریضۂ تبلیغ و ہدایت ادا کر ہی نہیں سکتا تھا۔ اگر فرشتوں کو اللہ رسول بناکر بھیجتا تو وہ انسانی زبان میں گفتگو ہی نہ کر پاتے۔ دوسرا وہ انسانی جذبات کو سمجھنے سے عاری ہوتے مختلف حالات و کیفیات سمجھنے سے عاری ہوتے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کا انسانو ں پر بڑا احسان ہے کہ اس نے انسان کو ہی نبی و رسول بنایا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ بَعَثَ فِيْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ﴾ (آل عمران: ۱۶۴) ’’اللہ نے مومنوں پر احسان کیا جب کہ انہی کی جانوں میں سے ایک شخص کو رسول بناکر بھیجا۔‘‘ اللہ تعالیٰ فرماتے کہ اگر فرشتہ اپنی اصل شکل میں آتا تو دہشت کے مارے فوراً مرجاتے انھیں ایمان لانے یا انکار کرنے کی مہلت ہی کہاں ملتی فرشتوں کو اصل شکل میں دیکھنے کے انبیاء ہی متحمل ہوسکتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل کو اصل شکل میں دوبار دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جبرائیل کے چھ سو پر تھے اور اس کی جسامت سے تمام افق بھر گیا تھا۔ (بخاری: ترمذی: ۳۲۷۸) کسی دوسرے نبی کا جبرائیل فرشتہ کو اپنی اصل شکل میں دیکھنا احادیث سے ثابت نہیں۔