سورة المآئدہ - آیت 117

مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلَّا مَا أَمَرْتَنِي بِهِ أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ ۚ وَكُنتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَّا دُمْتُ فِيهِمْ ۖ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنتَ أَنتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ ۚ وَأَنتَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

میں تو ان سے وہی بات کہی تھی جس کا تو نے مجھے حکم دیا تھا، کہ (اے اللہ کے بندو !) تم لوگ اللہ کی عبادت کرو جو میرا اور تم سب کا رب ہے، اور میں جب تک ان کے درمیان رہا ان کے اعمال پر شاہد رہا، پس جب تو نے مجھے (143) لیا تو اس کے بعد تو ہی ان کے اعمال سے باخبر رہا، اور تو ہر چیز کا نگہبان ہے

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

انبیاء کی اپنی اُمت کے اعمال سے بے خبری: سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خطبہ کے دوران فرمایا ’’لوگو تم اللہ کے سامنے ننگے پاؤں، ننگے بدن بے ختنہ حشر (جمع) کیے جاؤ گے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی۔ (بخاری: ۴۶۲۵، مسلم: ۲۸۶۰) (كَمَا بَدَاْنَاۤ اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِيْدُهٗ وَعْدًا عَلَيْنَا اِنَّا كُنَّا فٰعِلِيْنَ) تا آخر پھر فرمایا ’’سن لو! قیامت کے دن ساری خلقت میں سے سب سے پہلے حضرت ابراہیم کو کپڑے پہنائے جائیں گے اور میری اُمت کے کچھ لوگ حاضر کیے جائیں گے جنھیں فرشتے بائیں طرف (دوزخ کی طرف) لے چلیں گے میں کہوں گا! ’’پروردگار! یہ تو میرے ساتھی ہیں جواب ملے گا تو آپ نہیں جانتے آپ کے بعد ان لوگوں نے کیا کیا نئی باتیں (بدعتیں) نکالیں، اس وقت میں وہی کچھ کہونگا جو اللہ کے نیک بندے(عیسیٰ) نے کہا کہ جب تک میں ان لوگوں میں رہا ان کا حال دیکھتا رہا۔ پھر جب تو نے مجھے دنیا سے اٹھا لیا تو اس کے بعد تو ہی ان پر نگران تھا۔ جواب ملے گا جب تم ان سے جدا ہوئے اسی وقت سے یہ لوگ برابر ایڑیوں کے بل (اسلام سے) پھرتے رہے۔ (بخاری: ۴۶۲۵) اس آیت اور حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء کو غیب کا علم نہیں ہوتا مگر اتنا ہی جتنا اللہ تعالیٰ بتا دے۔ نیز یہ کہ انبیاء کو دنیا سے رخصت ہونے کے بعد اپنی اُمت کے اعمال کی خبر نہیں ہوتی عالم الغیب وہ ہوتا ہے جسے بغیر کسی کے بتائے ہر چیز کا علم ہوتا ہے اور اللہ کا علم از ل سے ابد تک محیط ہے۔ اور یہ صفت اللہ کے سوا کسی اور کے اندر نہیں، اس لیے عالم الغیب صرف ایک اللہ ہی کی ذات ہے۔ حضرت عیسیٰ کی دعا: اگر آپ عذاب دیں تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر آپ معاف کردیں تو بھی یہ آپکے بندے ہیں۔ آپ با اختیار ہیں آپ جو بھی فیصلہ کریں یہ دم نہیں مار سکتے۔ نہ بھاگ کر کہیں جاسکتے ہیں، مسند احمد کی ایک روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات نماز میں ایک ہی آیت پڑھتے رہے رکوع میں بھی سجدے میں بھی، اُمت کے لیے شفاعت کی دعا کی اوراللہ نے قبول کرلی شفاعت ہوگی اللہ کے حکم سے ہوگی۔ (مسند احمد: ۵/۱۷۰، ح: ۲۱۵۵۱) سورۂ زمر میں ہے کہہ دو کہ اے میرے بندو جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے وہ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوجاؤ۔ رسول پیغام پہنچانے میں بااختیار ہوتا ہے ہدایت دینے میں بے اختیار ہوتا ہے۔ اللہ غلبہ رکھنے والا ہے جس کے سامنے سارے مغلوب ہوجائیں۔