فَإِنْ عُثِرَ عَلَىٰ أَنَّهُمَا اسْتَحَقَّا إِثْمًا فَآخَرَانِ يَقُومَانِ مَقَامَهُمَا مِنَ الَّذِينَ اسْتَحَقَّ عَلَيْهِمُ الْأَوْلَيَانِ فَيُقْسِمَانِ بِاللَّهِ لَشَهَادَتُنَا أَحَقُّ مِن شَهَادَتِهِمَا وَمَا اعْتَدَيْنَا إِنَّا إِذًا لَّمِنَ الظَّالِمِينَ
پھر اگر معلوم ہوجائے کہ وہ دونوں (اپنی گواہی میں) گناہ گار بنے ہیں، تو (میّت) کے دو قریب ترین رشتہ دار، ان لوگوں میں سے جن کے حق میں گناہ ہوا ہے، گذشتہ دونوں آدمیوں کی جگہ پر کھڑے ہوں گے، اور اللہ کی قسم کھائیں گے کہ ہماری گواہی ان دونوں کی گواہی سے حق کے زیادہ قریب ہے، اور ہم نے کسی پر زیادتی نہیں کی ہے ورنہ ہم بے شک ظالموں میں سے ہوں گے
جھوٹی شہادت کبیرہ گناہ ہے: سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا ’’کیا میں تمہیں بڑے بڑے گناہوں کی خبر نہ دوں۔‘‘ صحابہ نے کہا یارسول اللہ! ضرور بتائیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اللہ کے ساتھ شرک کرنا اور والدین کی نافرمانی‘‘ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم تکیہ لگائے ہوئے تھے پھر سیدھے بیٹھ گئے اور فرمایا ’’خبردار جھوٹا قول اور جھوٹی شہادت آپ یہ کلمات دہراتے ہی رہے میں سمجھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چپ ہی نہ ہوں گے۔ (بخاری: ۲۶۵۴، مسلم: ۸۷) ان آیات کی قابل ذکر باتیں: (۱) پہلی دفعہ کے شہداء سے مراد وہ لوگ ہیں جن کو میت اپنا ترکہ حوالہ کرکے انھیں وصیت کرے۔ (۲) غیر مسلموں کو صرف اسی صورت میں وصی (جس کو وصیت کی جائے) بنایا جاسکتا ہے جب مسلم وصی دستیاب نہ ہورہے ہوں سفر میں اکثر ایسی ضرورت پیش آجاتی ہے۔ (۳) آئندہ کے لیے یہ قانون مقرر کردیا گیا ہے کہ اگر وصی کے بیانات میں کچھ شک پڑجائے تو اس کے بعد ان سے اہل تر لوگوں کی شہادت کی بنا پر اوصیا (وصی کی جمع) کی گواہی کو کالعدم بھی قراردیا جاسکتا ہے۔ لہٰذا انھیں چاہیے کہ گواہی ٹھیک ٹھیک دیا کریں تاکہ بعد میں رسوائی نہ ہو۔ (۴) صحیح تر بات یہ ہے کہ وہ اپنی رسوائی کے ڈر کی بجائے اگر اللہ سے ڈر کر سچی گواہی دیں تو زیادہ مناسب ہے۔