يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنفُسَكُمْ ۖ لَا يَضُرُّكُم مَّن ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ ۚ إِلَى اللَّهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ
اے ایمان والو ! تم اپنے بچاؤ کی فکر (130) کرو، اگر تم راہ راست پر چلتے رہو گے، تو کسی دوسرے کی گمراہی تمہیں نقصان نہیں پہنچائے گی، تم سب کو اللہ کے پاس ہی لوٹ کر جانا ہے، پس وہ تمہیں تمہارے کئے کی خبر دے گا
سب سے پہلے اپنی اصلاح ضروری ہے: الحمدللہ! اللہ نے ایمان والوں کے نام سے پکارا ہے اور اس آیت میں اُمت مسلمہ اور دوسری امتوں کے مقاصد اور ذمہ داریوں کا فرق بتایا ہے سب سے پہلے اپنے نفس کی اصلاح کرنی چاہیے، یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ دوسرا کیا کررہا ہے بلکہ اپنے عقائد اپنے کردار، اخلاق و اعمال کی اصلاح کتاب و سنت کی روشنی میں کرنی چاہیے۔ پھر اگر تم ہدایت یافتہ ہوگئے تو بھٹکے ہوئے لوگوں کی ضلالت تمہارا کچھ نہ بگاڑ سکے گی۔ اس کے بعد تمہیں بگڑے ہوئے لوگوں کی اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے۔ الامر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ نہایت اہم ہے۔ بعض علماء کے نزدیک یہ فرض عین ہے اور ہر شخص کو اپنی قوت، علم، استعداد کے مطابق اپنے حلقہ اثر میں یہ فرض ضرور انجام دینا چاہیے۔ اگر کوئی شخص روکنے کے بعد بھی باز نہ آئے تو روکنے والے پر کچھ الزام نہ ہوگا۔ حضرت ابوبکر صدیق نے فرمایا اس آیت کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا حکم نہیں دینا۔ لیکن اگر ایسا زمانہ آجائے لوگ دین پر دنیا کو ترجیح دے رہے ہوں تو آپ نے اپنی اصلاح پر توجہ دینی ہے۔ لوگ چھوڑے جاسکتے ہیں تم پر ان کی اصلاح کی ذمہ داری ہے پھر بھی اگر روکنے کے باوجود نہ روکیں تو روکنے والے پر کچھ الزام نہیں۔ (ابو داؤد: ۴۳۳۸، ترمذی: ۲۱۶۸)