مَا جَعَلَ اللَّهُ مِن بَحِيرَةٍ وَلَا سَائِبَةٍ وَلَا وَصِيلَةٍ وَلَا حَامٍ ۙ وَلَٰكِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ ۖ وَأَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ
اللہ تعالیٰ نے نہ کوئی بحیرہ (128) بنایا ہے اور نہ کوئی سائبہ، اور نہ کوئی وصیلہ، اور نہ کوئی حام، لیکن جن لوگوں نے کفر کیا وہ اللہ کے بارے میں جھوٹ بولتے ہیں، اور ان میں سے اکثر لوگ عقل سے کام نہیں لیتے ہیں
بحیرہ، سائبہ، وصیلہ اور حام: یہ ان جانوروں کو قسمیں ہیں جنھیں عرب اپنے بتوں کی نظر کردیا کرتے تھے۔حضرت سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ بحیرہ وہ دودھ دینے والا جانور ہے جسکا دودھ دوہنا چھوڑدیا جاتا اور کہا جاتا کہ یہ بتوں کے لیے ہے چنانچہ کوئی شخص اس کے تھنوں کو ہاتھ نہ لگاتا۔ سائبہ: وہ جانور جسے بتوں کے لیے چھوڑ دیتے نہ اس پر سواری کرتے نہ باربرداری کے لیے ۔ وصیلہ: وہ اونٹنی جو پہلی بار بھی مادہ جنے اور دوسری بار بھی مادہ جنے ایسی اونٹنی کو بھی بتوں کے نام پر چھوڑ دیتے اور حام: وہ نر اونٹ جس کے نطفہ سے دس بچے پیدا ہوچکے ہوں اسے بھی بتوں کے نام پر بطور سانڈ چھوڑ دیاجاتا۔ (بخاری: ۴۶۲۳) اسی روایت میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ بھی مروی ہے کہ سب سے پہلے بتوں کے نام پر آزاد جانور چھوڑنے والا شخص عمروبن عامر خزاعی تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں نے اسے جہنم میں اپنی انتڑیاں کھینچتے ہوئے دیکھا۔ (بخاری۴۶۲۳، مسلم: ۵۱/۲۸۵۶) اس آیت میں کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان جانوروں کو اس طرح مشروع نہیں کیا ہے کیونکہ اللہ نے تو نذرونیاز صرف اپنے لیے خاص کر رکھی ہے بتوں کے لیے نذرانے کے یہ طریقے مشرکوں نے ایجاد کیے ہیں۔ اور یہ سلسلہ آج بھی مشرکوں بلکہ نام نہاد مسلمانوں میں بھی قائم و جاری ہے۔