يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِن تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ وَإِن تَسْأَلُوا عَنْهَا حِينَ يُنَزَّلُ الْقُرْآنُ تُبْدَ لَكُمْ عَفَا اللَّهُ عَنْهَا ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ حَلِيمٌ
اے ایمان والو ! تم لوگ ایسی چیزوں کے بارے میں سوال (25) نہ کرو کہ اگر وہ تمہارے سامنے ظاہر کردی جائیں تو تمہیں (ذہنی طور پر) تکلیف پہنچائیں، اور اگر تم ان کے بارے میں نزول قرآن کے زمانے میں پوچھو گے (126) تو تمہارے سامنے ظاہر کردی جائیں گی، اللہ نے گذشتہ سوالات کو معاف کردیا، اور اللہ بڑا مغفرت کرنے والا، بڑا برداشت کرنے والا ہے
تم سوال نہ کرو: رسول اللہ سے زائد سوال کرنے سے روکا گیا ہوسکتا ہے ایسے فرائض عائد ہوجائیں جن پر عمل کرنا ممکن نہ ہو۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا کیا ہر سال حج فرض ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں، اگر میں ہاں کہہ دیتا تو ہر سال واجب ہوجاتا۔ (مسند احمد: ۱/۲۱۱۳، ح: ۹۰۸، مسلم: ۱۳۳۷) خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی صحابہ کرام کو زیادہ سوالات کرنے سے منع فرماتے تھے۔ ایک حدیث میں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسلمانوں میں سب سے بڑا وہ مجرم ہے جس کے سوال کرنے سے کوئی چیز حرام کردی گئی حالانکہ اس سے قبل وہ حلال تھی۔ (بخاری: ۷۲۸۹) اگر نزول قرآن کے وقت سوال کرو تو ظاہر کردی جائیں گی اور اللہ درگزر کرنے والا اور حلیم ہے۔