يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَيَبْلُوَنَّكُمُ اللَّهُ بِشَيْءٍ مِّنَ الصَّيْدِ تَنَالُهُ أَيْدِيكُمْ وَرِمَاحُكُمْ لِيَعْلَمَ اللَّهُ مَن يَخَافُهُ بِالْغَيْبِ ۚ فَمَنِ اعْتَدَىٰ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌ
اے اہل ایمان ! اللہ تمہیں کچھ شکار کے جانوروں کے ذریعہ آزمائے گا (114) جن تک تمہارے ہاتھ اور تمہارے نیزے پہنچ پائیں گے، تاکہ اللہ جان لے کہ کون اس سے بغیر دیکھے ڈرتا ہے، پس جو کوئی اس حکم کے بعد حد سے تجاوز کرے گا، اس کے لیے دردناک عذاب ہے
شکار عربوں کی معاش کا ایک اہم عنصر تھا۔ اس لیے حالت احرام میں اسکی ممانعت کرکے ان کا امتحان لیا گیا۔ خاص طور پر حدیبیہ میں قیام کے دوران کثرت سے شکار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے قریب آتے لیکن انہی ایاّم میں ان چار آیتوں کا نزول ہوا جن میں اس سے متعلقہ احکام فرمائے گئے۔ محرم پر شکار کی پابندی: ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم حدیبیہ کے سفر پر روانہ ہوئے۔ تمام اصحاب نے احرام باندھا میں نے نہیں باندھا تھا۔ میرے ساتھیوں نے راستہ میں ایک جنگلی گدھا دیکھا اور ایک دوسرے کو دیکھ کر ہنسنے لگے میں جوتی پہننے میں مشغول تھا۔ لیکن انھوں نے مجھے نہ بتایا اگرچہ وہ چاہتے تھے کہ میں اُسے دیکھ لوں اچانک میں نے نظر اٹھائی تو گدھے کو دیکھا میں گھوڑے پر زین کس کر اس پر سوار ہوگیا اور جلدی میں کوڑہ اور نیزہ لینا بھول گیا۔ میں نے انھیں کہا کہ مجھے کوڑہ اور نیزہ اٹھا کردے دو ۔ انھوں نے قسم کھا کر کہا ’’اللہ کی قسم اس کام میں ہم تمہاری کچھ مدد نہ کریں گے۔‘‘ میں غصہ میں اترا کوڑہ اور نیزہ پکڑ کر گدھے پر حملہ آور ہوا اور نیزہ چبھو کر اسے روک دیا۔ پھر میں نے ان سے مدد طلب کی۔ انھوں نے پھر بھی میری مدد کرنے سے انکار کردیا الغرض ہم سب نے اسے کھایا پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملا ۔ میں نے کہا کہ ہم سب نے جنگلی گدھے کا شکار کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے پوچھا ’’کیا تم میں سے کسی نے شکار کیا یا کرنے کے لیے کہا یا اس کی طرف اشارہ کیا یا کسی قسم کی مدد کی تھی۔‘‘ صحابہ نے کہا نہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہ تم بھی اسے کھا سکتے ہو(جو احرام میں تھے) پھر پوچھا ’’کیا تمہارے پاس اس میں سے کچھ باقی ہے‘‘ میں نے دستی پیش کی جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کاٹ کر کھایا۔ (بخاری: ۱۸۲۲) واضح رہے کہ جس طرح احرام میں شکارکرنا منع ہے اسی طرح حرم کعبہ میں داخل ہونے والے پر بھی حرام ہے کیونکہ ’’ اَنْتُمْ حُرُمٌ‘‘ کا لفظ دونوں صورتوں کو شامل ہے۔