وَإِذَا سَمِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَى الرَّسُولِ تَرَىٰ أَعْيُنَهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوا مِنَ الْحَقِّ ۖ يَقُولُونَ رَبَّنَا آمَنَّا فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِينَ
اور جب وہ لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل شدہ قرآن سنتے ہیں، تو آپ دیکھتے ہیں کہ حق کے عرفان کی وجہ سے ان کی آنکھوں سے آنسو جاری (108) ہوجاتا ہے، وہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ! ہم ایمان لے آئے، اس لیے تو ہمارا نام حق کی گواہی دینے والوں میں لکھ لے
یہاں تذکرہ ہے ان افراد کا جو کلام کو سنتے ہیں، حق کو پالیتے ہیں پھر شہادت حق کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ توجہ اور تمنا کا ر خ بدل جاتا ہے۔ زندگی میں تمنائیں ہی ہیں اگر زندگی سے تمنائیں نکال دی جائیں تو باقی کیا رہ جاتا ہے۔ سچ پانے کے بعد تمنا کا رخ بدل جاتا ہے کہ اللہ راضی ہوجائے ہر لمحے توجہ اللہ کی طرف لگ جاتی ہے۔ اور اللہ کی رضا کی اور جنت کی تمنا پیدا ہوجاتی ہے قرآن کے الفاظ انسان کی زندگی اور اسکی تمنائیں بدل دیتے ہیں۔مصرع!( دیکھا ہے جو خود میں نے اوروں کو بھی دکھلا دے )کن کے آنسو بہتے ہیں۔ یہ واقعہ ہے جب مسلمان ہجرت کرکے حبشہ چلے گئے تو مشرکین مکہ نے فیصلہ کیا کہ اُن کو کسی نہ کسی طرح واپس لائیں چنانچہ وہ حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے پاس گئے، اس کے درباریوں کو تحفے تحائف دیکر اپنے ساتھ ملا لیا کہ جب ہم بادشاہ کے سامنے ان لوگوں کی واپسی کا مطالبہ کریں تو تم بھی ہمارا ساتھ دینا۔ چنانچہ قریش مکہ نے نجاشی سے کہا کہ ہمارے کچھ لوگ بھاگ کر آگئے ہیں انھیں واپس کردیجئے۔ درباریوں نے بھی ہاں میں ہاں ملادی۔ لیکن نجاشی بڑا انصاف پسند بادشاہ تھا اُس نے کہا جب تک دوسرے فریق کی بات نہ سنوں گا میں انھیں تمہارے حوالے نہیں کرونگا، چنانچہ دوسرے دن مہاجر مسلمانوں کو بلاکر پوچھا تو انھوں نے مشرکین مکہ کی ایذا رسانیوں اور مسلمانوں کی مظلومیت کی داستان سنائی اس پر نجاشی نے مشرکین مکہ کو صاف صاف انکار کردیا۔ وفد کے ایک آدمی نے تجویز پیش کی کہ کل ہم پھر حاضر ہوکر ایسی بات پیش کریں گے کہ بادشاہ خود ان مسلمانوں کو ہمارے حوالے کردے گا۔ دوسرے دن وفد دربار میں حاضر ہوا اور نجاشی سے کہا کہ ان بے دین مفرور لوگوں سے یہ تو پوچھیں کہ یہ حضرت عیسیٰ کے بارے میں کیا عقیدہ رکھتے ہیں۔ اس وقت پوری دنیا میں عیسیٰ علیہ السلام کے ابن اللہ کا عقیدہ رائج ہوچکا تھا۔بہر حال مسلمانوں نے یہ طے کرلیا کہ ہم جو کچھ بھی کہیں گے سچ کہیں گے۔ چنانچہ جب نجاشی نے حضرت عیسیٰ کے بارے میں سوا ل کیاتو جعفر طیار رضی اللہ عنہ جو حضرت علی کے بھائی تھے جواب میں سورۂ مریم کی متعلقہ آیات پڑھ کر سنادیں۔ آیات سن کر نجاشی نے ایک تنکا اٹھایا اور مسلمانوں سے کہا، واللہ! جو کچھ تم نے کہا عیسیٰ علیہ السلام اس تنکے کے برابر بھی اس سے زیادہ نہیں ہیں۔ اور مسلمانوں کو اپنے ملک میں رہنے کی کھلے دل سے اجازت دے دی۔ اس واقعہ کے کئی سال بعد نجاشی نے ستر نو مسلم عیسائیوں پر مشتمل ایک وفد مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں روانہ کیا، یہ لوگ جب قرآن سنتے تو ان پر رقت طاری ہوجاتی وفور جذبات سے آنسو بہنے لگتے اور زبان سے (رَبَّنَا اٰمَنَّا) کہنا شروع کردیتے۔ اس آیت میں انہی لوگوں کی کیفیت بیان کی گئی ہے۔ نجاشی کی غائبانہ نماز جنازہ :شاہ حبشہ نجاشی اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر نہ ہوسکا تاہم مسلمان ضرور ہوچکا تھا اور اس پر واضح دلیل یہ ہے کہ جب وہ فوت ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو اس کی وفات کی خبردی، پھر اسکی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی۔ (بخاری: ۱۳۱۸)