لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ ۖ وَقَالَ الْمَسِيحُ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اعْبُدُوا اللَّهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ ۖ إِنَّهُ مَن يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ ۖ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنصَارٍ
یقینا وہ لوگ کافر (98) ہوگئے جنہوں نے کہا کہ بے شک اللہ مسیح ابن مریم ہی ہیں، اور مسیح نے کہا، اے بنی اسرائیل ! تم لوگ اللہ کی عبادت کرو جو میرا اور تم سب کا رب ہے، بے شک جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرائے گا تو اللہ نے اس پر جنت حرام کردی ہے، اور اس کا ٹھکانا جہنم ہے، اور ظالموں کا کوئی مددگار نہ ہوگا
(۱)شرک کے ساتھ جنت میں داخلہ ممکن نہیں۔ (۲) ان کا ٹھکانہ جہنم ہے فیصلہ ہوچکا یہاں اہل کتاب کی گمراہیوں کے ذکر میں ان کے اس فرقے کے کفر کا اظہار ہے، جو مسیح علیہ السلام کے عین اللہ ہونے کا قائل ہے۔ اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے یہ دیا کہ ’’عیسیٰ علیہ السلام تو خود کہتے تھے کہ صرف اللہ کی عبادت کرو جو میرا اور تمہارا سب کا پروردگار ہے۔‘‘ یعنی وہ خود اقرار کرتے ہیں کہ میں اللہ کی عبادت کرتا ہوں اور اس کا بندہ ہوں، اب بندہ رب کا شریک نہیں ہوسکتا اور جو اس کا شریک ہو وہ اسکا بندہ نہیں ہوسکتا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿قَالَ اِنِّيْ عَبْدُ اللّٰهِ اٰتٰىنِيَ الْكِتٰبَ وَ جَعَلَنِيْ نَبِيًّا﴾ (مریم: ۳۰) میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں مجھے اس نے کتاب بھی عطا کی ہے ۔ حضرت مسیح نے یہ نہیں کہا کہ میں اللہ ہوں یا اللہ کا بیٹا ہوں ۔ یہ بات انھوں نے اللہ کے حکم سے گہوار ے میں فرمائی تھی۔ جب کے بچے اس عمر میں قوت گویائی نہیں رکھتے۔ لہٰذا عقل کے ناخن لو اور انھیں اللہ کا شریک بنانے سے باز آجاؤ، ورنہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں جلنا پڑیگا، پھر وہاں نہ عیسیٰ علیہ السلام بچا سکیں گے اور نہ کوئی دوسرا ان کی کسی طرح مدد کرسکے گا۔