وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقَامُوا التَّوْرَاةَ وَالْإِنجِيلَ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْهِم مِّن رَّبِّهِمْ لَأَكَلُوا مِن فَوْقِهِمْ وَمِن تَحْتِ أَرْجُلِهِم ۚ مِّنْهُمْ أُمَّةٌ مُّقْتَصِدَةٌ ۖ وَكَثِيرٌ مِّنْهُمْ سَاءَ مَا يَعْمَلُونَ
اور اگر وہ تورات و انجیل اور اس (قرآن) پر عمل پیرا (92) ہوتے جو ان کے رب کی طرف سے ان کے لیے نازل کیا گیا ہے، تو اپنے اوپر سے اور اپنے پاؤں کے نیچے سے روزی پاتے، ان میں سے ایک جماعت (93) راہ اعتدال پر چلنے والی ہے، اور ان میں سے بہتوں کے کرتوت برے ہیں
تورات اور انجیل پر عمل پیرا ہونے کا مطلب ہے کہ ان میں جو احکام دیے گئے ہیں انکی پابندی کی جائے اور انہی میں ایک حکم نبی آخرالزماں پر ایمان لانا بھی تھا۔ اور تمام آسمانی کتابوں پر ایمان لانا ہے۔ جن میں قرآن کریم بھی شامل ہے مطلب یہ ہے کہ یہ اسلام قبول کرلیتے۔ اوپر اور نیچے سے رزق ملتا: یعنی اللہ تعالیٰ کثرت سے انواع و اقسام کے رزق مہیا فرماتا اوپر سے یعنی آسمان سے حسب ضرورت خوب بارشیں برساتا اور نیچے سے مراد زمین ہے یعنی زمین اپنے اندر اس بارش کو جذب کرکے خوب پیداوار دیتی جس سے شادابی و خوشحالی کا دور دورہ ہوجاتا جس طرح قرآن کریم میں ارشاد ہے: ﴿وَ لَوْ اَنَّ اَهْلَ الْقُرٰى اٰمَنُوْا وَ اتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَرَكٰتٍ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ﴾ (الاعراف: ۹۶) ’’اگر بستیوں والے ایمان لائے ہوتے اور انھوں نے تقویٰ اختیار کیا ہوتا توہم ان پر آسمان اور زمین کی برکات کے (دروازے) کھول دیتے۔‘‘ لیکن ان میں سے اکثر نے ایمان کا یہ راستہ اختیار نہیں کیا اور وہ کفر پر مُصر اور رسالت محمد ی کے انکار پر اڑے ہوئے ہیں۔ راست رو سے مراد: عبداللہ بن سلام اور انکے ساتھی جو یہود مدینہ میں سے مسلمان ہوئے۔