وَتَرَىٰ كَثِيرًا مِّنْهُمْ يُسَارِعُونَ فِي الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَأَكْلِهِمُ السُّحْتَ ۚ لَبِئْسَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ
اور آپ ان میں سے بہتوں (85) کو دیکھتے ہیں کہ ارتکابِ گناہ، ظلم و عدوان اور حرام خوری میں ایک دوسرے سے آگے بڑھے جا رہے ہیں، یقیناً ان کے کرتوت ہی برے ہیں
گناہ اور زیادتی کے کاموں سے مراد: ان کے اعمال، ان کے رویے، یہ گناہ، ظلم اور زیادتی کے کاموں میں بہت متحرک ہیں ایک دوسرے سے آگے بڑھ کر حرام مال کھاتے ہیں۔ اسلام سے دشمنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے عداوت، یہودیوں کی شرارتیں اور قریش کے ساتھ ان کا اتحاد اور ان کا حرام کھانا، بہت بُرے کام ہیں۔ علماء اور مشائخ کیوں نہیں روکتے: اللہ تعالیٰ نے توجہ دلائی ہے کہ ان کا سسٹم تباہ ہوچکا ہے اس لیے ان کے علماء نے دین کو کھیل بنالیا ہے وہ عوام کی کرتوتوں پر خاموش رہتے ہیں، ان پر جوامرباالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری ہے اسے پورا نہیں کرتے۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ تم میں سے کوئی شخص جب کوئی بُرائی دیکھے تو اسے بزور بازو ختم کردے، اور اگر ایسا نہیں کرسکتا تو زبان سے ہی روکے، اور اگر اتنا بھی نہیں کرسکتا تو کم از کم دل میں ہی اسے بُرا سمجھے اور یہ ایمان کا کمزور تر درجہ ہے۔ (مسلم: ۴۹) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ: ’’جس نے دس درہم میں کوئی کپڑا خریدا، اس میں ایک درہم حرام کا تھا، اس کی چالیس دن کی نماز قبول نہ ہوگی۔‘‘ (شعب الایمان: ۵۷۰۷)