سورة المآئدہ - آیت 52

فَتَرَى الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ يُسَارِعُونَ فِيهِمْ يَقُولُونَ نَخْشَىٰ أَن تُصِيبَنَا دَائِرَةٌ ۚ فَعَسَى اللَّهُ أَن يَأْتِيَ بِالْفَتْحِ أَوْ أَمْرٍ مِّنْ عِندِهِ فَيُصْبِحُوا عَلَىٰ مَا أَسَرُّوا فِي أَنفُسِهِمْ نَادِمِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اس لیے آپ ان لوگوں کو جن کے دلوں میں نفاق کی بیماری (76) ہے، دیکھ رہے ہیں کہ ان میں مل جانے کے لیے جلدی کر رہے ہیں، کہتے ہیں، ڈر ہے کہ ہمیں کوئی مصیبت لاحق ہوجائے گی، پس توقع ہے کہ اللہ (مسلمانوں کے لیے) فتح یا اپنے پاس سے کوئی اور چیز بھیج دے، پھر وہ ان باتوں پر نادم ہوں جنہیں اپنے دلوں میں چھپا رکھا تھا

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

یہود و نصاریٰ سے دلی دوستی رکھنے والے منافقین تھے جو بظاہر مسلمان تھے مگر ان کی دلی ہمدردیاں یہود و نصاریٰ اور کفار کے ساتھ ہی تھیں۔ منافق کی ذہنیت وہ ہر کام کا انجام دنیا تک محدود رکھتا ہے۔ اور دنیا دارالعمل ہے اور آخرت دارالخیر ہے۔ مومن آخرت کے اندیشے میں جیتا ہے اور مومن عاجزی میں جیتا ہے۔ یہود و نصاریٰ دونوں مسلمانوں کی نسبت بہت زیادہ مالدار تھے سودی کاروبار کرتے تھے۔ عرب کے سرسبز و شاداب خطے بھی انہی کے قبضہ میں تھے۔ عرب کی معیشت پر یہی لوگ چھائے ہوئے تھے۔ ان حالات میں منافق یہ سوچتے تھے کہ اگر مسلمان ہار گئے تو ہم تو کہیں کے نہ رہیں گے۔ لہٰذا ان سے دوستی کرنا، خفیہ طور پر اسلام دشمن سازشوں میں ان کا ساتھ دینا۔ جنگ کے دوران ان سے مسلمانوں کے خلاف خفیہ معاہدے کرنا ان کے مطابق انتہائی ضروری تھا۔ دوسرا یہ بھی سوچتے تھے کہ اگر مسلمان غالب آ گئے تو ہم کیا کریں گے اس لیے بظاہر یہ مسلمانوں کی جماعت میں شامل رہتے نماز بھی ادا کرتے نفاق سے پڑھی گئیں نمازیں، روزے سب ضائع ہوگئے انھیں کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ منافقین بھی حقیقتاً مسلمان نہیں بلکہ یہود و نصاریٰ ہی ہیں۔ حضرت عمر سے حدیث مروی ہے كہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ جو دنیا کمانے کے لیے ہجرت کرے گا، جو کسی عورت کو حاصل کرنے کے لیے ہجرت کرے گا اسکو اُسی کا بدلہ ملے گا۔ اور یہ ہجرتیں انھیں کے لیے ہونگی۔ (بخاری: ۱) نیت خالص ہو تو عمل پھلتا پھولتا ہے۔ مومنوں کو جلد ہی فتح عطا فرماوے: قرآن کریم میں اکثر مقامات پر بِالْفَتْحِ سے مراد فتح مکہ لی گئی ہے۔ یہود و نصاریٰ مشرکین مکہ اور منافقین سب سمجھتے تھے کہ مسلمانوں اور قریش مکہ میں بالا تر قوت وہی سمجھی جاسکتی ہے جسکا مکہ اور بیت اللہ پر قبضہ ہو۔ اللہ تعالیٰ اس آیت میں منافقوں سے یہ خطاب فرمارہے ہیں کہ عین ممکن ہے عنقریب اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو فتح مکہ سے ہمکنار کردے، اور منافقوں کے یہود و نصاریٰ سے سازباز کے سب پھول کھل جائیں اور وہ پوری طرح ننگے، نادم اور شرمسار ہوکر رہ جائیں، اسی لیے وہ یہودیوں سے دوستی رکھتے تھے کہ وہ ہمارے کام آئیں گے۔