سَمَّاعُونَ لِلْكَذِبِ أَكَّالُونَ لِلسُّحْتِ ۚ فَإِن جَاءُوكَ فَاحْكُم بَيْنَهُمْ أَوْ أَعْرِضْ عَنْهُمْ ۖ وَإِن تُعْرِضْ عَنْهُمْ فَلَن يَضُرُّوكَ شَيْئًا ۖ وَإِنْ حَكَمْتَ فَاحْكُم بَيْنَهُم بِالْقِسْطِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ
یہ لوگ جھوٹ بولنے کے لیے دوسرے کی باتوں پر کان لگاتے ہیں، اور بڑے حرام (58) کھانے والے ہیں، پس اگر وہ لوگ آپ کے پاس آویں تو ان کے درمیان فیصلہ کردیجئے یا ان سے منہ پھیر لیجئے، اور اگر آپ ان سے منہ پھیر لیں گے تو وہ آپ کا کچھ بھی بگاء نہ سکیں گے، اور اگر آپ فیصلہ کیجئے تو ان کے درمیان عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کیجئے، بے شک اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے
یہودیوں کے خبث باطن کی دیگر وجوہات کے علاوہ دو وجوہات یہ بھی تھیں۔ (۱) مسلمانوں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجالس میں آتے ہی اس لیے تھے کہ یہاں سے جو کچھ سنیں اسے اپنے لفظوں میں توڑ مروڑ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو بدنا م کریں۔ (۲) حرام خور ہیں، حرام کھانے والے، رشوت لینے والے آج ہمارے معاشرے میں بھی حرام خوری عام ہے۔ بعض عالم دین فتویٰ دینے کے لیے، عوام کی پسند کا دین پیش کرنے کے لیے نذرانے وصول کرتے ہیں۔ ارشاد نبوی ہے کہ: ’’ایک انسان جھوٹ بولتا رہتا ہے جہنم تک پہنچ جاتا ہے اور ایک انسان سچ بولتا رہتا ہے جنت میں پہنچ جاتا ہے۔‘‘(بخاری: ۶۰۹۴) جی چاہے تو فیصلہ کرو: گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیار تو دے دیا گیا کہ چاہیں تو فیصلہ کریں یا نہ کریں لیکن جب کرنا چاہیں تو انصاف کے ساتھ ہی فیصلہ کرنا ہوگا۔ انصاف کرنا آسان نہیں: لیکن اگر اللہ سے ڈر كے اور اللہ کی رضا کے لیے انصاف سے فیصلہ کرتا ہے تو اللہ اُسے پسند کرتا ہے۔ اور عضو کے بدلے عضو: یہی احکام تورات میں ہیں اور کفارہ یعنی معافی نہیں تھی۔ جرم کی سزا برابر کی سزا ہوگی۔ جس شخص کو جسمانی تکلیف دی جائے اور وہ معاف کردے تو اللہ اُس کے درجات بلند کردے گا۔