يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
اے ایمان والو ! اللہ سے درو، اور اس تک وسیلہ (48) تلاش کرو، اور اس کی راہ میں جہاد (49) کرو، تاکہ تمہیں کامیابی حاصل ہو
وسیلہ سے مراد کسی مقصود کے حصول یا اس کے قرب کا ذریعہ ہے۔ ’’اللہ تعالیٰ کی طرف وسیلہ تلاش کرو۔‘‘ سے یہ مراد ہے کہ ایسے اعمال اختیار کرو جس سے تمہیں اللہ کی رضا اور اسکا قرب حاصل ہوجائے۔ اس آیت کے مخاطب وہ تمام افراد ہیں جنھوں نے مان لیا اللہ کو، رسولوں کو، کتابوں کو آخرت کو ان سے کہا گیا ہے کہ اللہ سے ڈر جاؤ۔ تقویٰ بنیاد ہے: خوف اور بے خوفی میں اگر کوئی شخص خوف کا راستہ اختیار کرتا ہے تو پھر اللہ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ تقویٰ سے ایمان ملتا ہے اور ایمان سے اللہ کا خوف ملتا ہے وسیلہ کا مطلب قربت ہے یعنی ایسے کام کرو کہ اللہ سے جڑ جاؤ۔ اللہ کی نظروں میں مقام پانے کے لیے انسان اپنی جان پر کھیل جائے۔ احساس اور شعور اللہ کی قربت کے راستے تلاش کرتا ہے اسی طرح حلال و حرام کے اجتناب سے بھی اللہ کا قرب ملتا ہے اور ان کا ترک کرنا قرب الٰہی کا وسیلہ بنتا ہے۔ جہاد کیا ہے؟ ایک کوشش ہے زندگی میں اچھے اور بُرے کی جنگ میں جو کوشش کی جاتی ہے اُسے نفس کی جنگ کہتے ہیں، مصلحت اور ناحق کو نظر انداز کرکے اللہ کو پکڑنا ہر مشکل و مصیبت کو جھیل کر اللہ کی طرف بڑھنے کو جہاد کہتے ہیں۔ سیدنا ابن عباس سے روایت ہے کہ میں ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سواری پر پیچھے بیٹھا ہوا تھا رسول اللہ نے فرمایا ! اے لڑکے میں تجھے کچھ باتیں بتاتا ہوں۔ (۱) تو اللہ کی حفاظت کر اللہ تیری حفاظت کرے گا۔ (۲) تو اللہ کے حقوق کا خیال رکھ اللہ تیرے حق کی حفاظت کرے گا۔ (۳) سوال اللہ کے سوا کسی سے نہ کرو، یہ جان لو کہ اگر ساری دنیا مل کر تمہیں کچھ نقصان پہنچانا چاہے تو نہیں پہنچا سکتی (۴) مدد اللہ سے مانگنا ہے۔‘‘ (ترمذی: ۲۵۶۱، مسند احمد: ۱/ ۲۹۳، ح: ۲۶۶۹) وسیلہ کی تین جائز صورتیں ہیں۔ (۱) اللہ تعالیٰ کے نام اور اسکی صفات کے حوالے سے مانگنا۔ (۲) کسی زندہ شخص کو اپنی دعا کا وسیلہ بنایا جائے۔ (۳) اپنے ہی نیک اعمال کو وسیلہ بنایا جائے۔ زندہ شخص کے وسیلہ کی مثال: حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں سیدنا عمر کے زمانے میں جب قحط پڑا تو سیدنا عباس کے وسیلے سے دعا کرتے اور کہتے ’’یا اللہ ہم تیرے پاس اپنے پیغمبر کا وسیلہ لایا کرتے تو تُو پانی برساتا تھا اب اپنے پیغمبر کے چچا کا وسیلہ لائے ہیں ہم پر بارش برسا‘‘ راوی کہتا ہے کہ پھر بارش ہوجاتی۔ (بخاری: ۳۷۱۰) اپنے اعمال کو وسیلہ بنایا جائے: بخاری کی طویل حدیث متعدد مقامات پر مذکور ہے کہ بنی اسرائیل کے تین شخص ایک دفعہ سفر پر جاتے ہیں کہ طوفان بادوباراں میں گھر گئے تو ایک غار میں جاکر پناہ لی۔ اتفاق سے ایک بڑا پتھر پہاڑ سے لڑھکتا ہوا آیا جس نے غار کا منہ بند کردیا، اب وہ تینوں اپنی زندگی سے مایوس ہوگئے انھوں نے سوچا کہ اس وقت صرف اللہ سے دعا ہی کام آسکتی ہے لہٰذا ہم میں سے ہر شخص اپنے کسی نیک کام، عمل کا واسطہ دے کر اللہ سے دعا کرے جو اس نے خالصتاً اللہ کی رضا مندی کے لیے کیا ہو چنانچہ پہلے شخص نے اپنے عمل کا واسطہ دے کر دعا کی تو تیسرا حصہ پتھر غار کے منہ سے سرک گیا، پھر دوسرے نے دعا کی تو پتھر مزید تیسرا حصہ سرک گیا، پھر تیسرے نے اپنے عمل کے وسیلہ سے دعا کی تو سارا پتھر غار کے منہ سے ہٹ گیا اور وہ باہر نکل آئے۔ (بخاری: ۳۴۶۵) اللہ کے نام اور صفات کا وسیلہ: جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لیلة القدر کے حوالے سے دعا سکھائی ۔ ’’ اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ‘‘ مگر ہمارے ہاں وسیلہ پکڑنے کا بہت غلط طریقہ رائج ہوچکا ہے۔ (۱) وسیلہ کو شفاعت کے معنی میں لیا جاتا ہے۔ (۲) ہم یہ سمجھنے لگے ہیں کہ اللہ کے نیک بندوں کو اللہ کا قرب حاصل ہے۔ ہم ان کو راضی کرکے آخرت میں جنت میں داخل ہوجائیں گے۔ (۳) کسی کمزور آدمی کا کسی بڑے آدمی کو وسیلہ بنا لینا۔ اس طرح انسان دنیا میں بھی وسیلے تلاش کرتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ اس طرح بزرگوں کو وسیلہ بنا کر آخرت میں معافی مل جائے گی۔ (۴) جو عظمت اللہ تعالیٰ کی ہے دنیا میں بزرگوں کو شفیع بناکر ان کے خدمتگار بن جاتے ہیں۔ (۵) شفاعت کے منصب پر کون فائز ہے اللہ کے سوا کسی کو معلوم نہیں۔ خودساختہ وسیلے: مشکل کشا کی ناراضگی سے بچنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ اس کے نام کی نذر نیاز دی جاتی ہے۔ اگر وہ فوت ہوجائے تو قبر پر پھول چڑھائے جاتے ہیں دھاگے باندھے جاتے ہیں۔ مشکل کشا تو قبر سے باہر نہیں آسکتا مشکلات دور کیسے کرے گا۔ جب انسان عقل استعمال نہیں کرتا تو سب معاملات الٹے ہوجاتے ہیں۔ اللہ سے بے خوف انسان عملی زندگی میں تمام معاملے وہ اپنے مشکل کشا کے سپرد کردیتا ہے ہر برائی کرنے کے بعد اس کے آستانے پر کچھ نذرانے پیش کردیتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں کسی نبی کو وسیلہ نہیں بنایا تھا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ اتَّقُوْا يَوْمًا لَّا تَجْزِيْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَيْـًٔا﴾ (البقرۃ: ۴۷) ’’ڈرو اس دن سے جس دن کوئی شخص کسی کے کچھ کام نہ آئے گا۔‘‘ اور فرمایا: ﴿وَ يَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا يَضُرُّهُمْ وَ لَا يَنْفَعُهُمْ وَ يَقُوْلُوْنَ هٰؤُلَآءِ شُفَعَآؤُنَا عِنْدَ اللّٰهِ﴾ (یونس: ۸۱) ’’یہ لوگ اللہ کے سوا ان کی عبادت کرتے ہیں جو لوگوں کو نہ نقصان پہنچا سکتے ہیں نہ نفع، کہتے ہیں یہ لوگ ہمارے سفارشی ہیں۔‘‘ اور فرمایا: ﴿وَ مَا يَسْتَوِي الْاَحْيَآءُ وَ لَا الْاَمْوَاتُ اِنَّ اللّٰهَ يُسْمِعُ مَنْ يَّشَآءُ وَ مَاۤ اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِي الْقُبُوْرِ﴾ (فاطر: ۲۲) اور زندہ اور مردے برابر نہیں ہوسکتے۔ اور اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے سنادیتا ہے اور آپ ان لوگوں کو نہیں سنا سکتے جو قبروں میں مدفون ہیں۔ چھوٹی سی غلطی انسان کو جہنم میں لے جاتی ہے۔ اللہ کا وسیلہ جنت میں داخلہ کا وسیلہ ہے۔ ارشاد ہے: ﴿اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ كَانَتْ لَهُمْ جَنّٰتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلًا﴾ (الکہف: ۱۰۷) ’’یقینا وہ لوگ جو ایمان لائے، نیک عمل کیے ان کے لیے جنت الفردوس کی مہمانی ہے۔ اور فرمایا: ﴿اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَهُمْ جَنّٰتُ النَّعِيْمِ﴾ (لقمان: ۸) ’’بیشک وہ لوگ جو ایمان لائے نیك عمل كیے، ان کے لیے جنت ہے۔‘‘ وسیلہ! رسول اللہ نے فرمایا ’’اذان سنو اور درود پڑھو، اور میرے لیے اللہ تعالیٰ سے وسیلہ طلب کرو وہ جنت کا ایک ہی درجہ ہے جسے ایک ہی شخص پائے گا اور وہ میں ہونگا۔ اور جو میرے لیے وسیلہ مانگے گا میں اس کی شفاعت کرونگا، وسیلے سے بڑا درجہ جنت میں کوئی نہیں لہٰذا تم میرے لیے وسیلہ کی دعا کرو۔‘‘ اے لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے آؤ۔ محض زبان سے چند الفاظ ادا کرنا ایمان نہیں۔ ایمان: در حقیقت اس کائنات پر غوروفکر کرکے اللہ کو پالینے کا نام ہے۔ اللہ کی قدرت اس کی عظمت، اس کی تخلیق، اس کی ملکیت اور اللہ کی ذات و صفات کو پالینے والا ہی ایمان والا ہے۔ جس دل میں ایمان آجاتا ہے وہ عمل صالح کرنے والا ہوجاتا ہے۔ ایمان اس بات کی شہادت ہے کہ اللہ کے سوا کوئی نہیں جسکی غلامی کی جائے اور اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں۔ کلمہ طیبہ: کی مثال پاکیزہ درخت کی ہے جس کی جڑ زمین میں گہری اتری ہوئی ہے اور اس کی شاخیں دور تک پھیلی ہوئی ہیں۔ پھر ایمان والے کے اخلاق اتنے اچھے ہوجاتے ہیں جس سے دوسرے لوگوں کو فائدہ پہنچتا ہے۔ مومن: ایسا انسان غلطیاں کرسکتا ہے کبیرہ گناہ بھی کرسکتا ہے مگر وہ شرک نہیں کرسکتا ۔ شرک کرنیوالے کو کبھی بھی جہنم سے نہیں نکالا جائے گا۔ ابوہریرہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہرنبی کی دعا ایسی ہے جو ضرور قبول ہوتی ہے ہر نبی نے یہ دعا دنیا میں ہی مانگ لی، میں نے یہ دعا قیامت کے دن کے لیے رکھی ہے اور اپنی اُمت کے تمام لوگ سوائے شرک والوں کے سب کے لیے دعا کرونگا۔‘‘ قیامت کے دن بادشاہت تو اللہ کے ہاتھ میں ہوگی اور وہ پکار کر کہے گا، کہاں ہے وہ طاقتور اور مغرور بادشاہ اور زمین و آسمان کو اپنی مٹھی میں لپیٹ کر کہے گا کہ آج تو بادشاہت میری ہے اور کون ہے جو میری اجازت کے بغیر کسی کی سفارش کرے گا۔ سفارش کا فائدہ صرف عقیدہ توحید پر مرنے والوں کو ہوگا۔ قرآن کی رو سے جو مسلمان ہونگے وہی باہر نکلیں گے، منافق اور مشرکین جہنم میں ہی رہیں گے۔(مسلم) دو قسم کے لوگ جو جنت الفردوس میں داخل ہونگے۔ ۱) بغیر حساب کتاب کے جنت میں داخل ہونگے۔ ۲) اپنے گناہوں کی سزا بھگتنے جہنم میں جائیں گے پھر مختلف اوقات میں باہر نکلیں گے۔ ۱۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے بغیر کسی حساب کتاب کے جنت میں جائیں گے۔ ۲۔ حساب کتاب ہوگا۔ عمل صالح ہونگے جنت میں جائیں گے۔ ۳۔ نیکیاں اور برائیاں برابر ہونگی، اعراف کے مقام پر ٹھہرائے جائیں گے۔ ۴۔ نیکیاں برائیوں سے کچھ کم ہونگی، آپ کی شفاعت سے معاف کردیے جائیں گے۔ ۵۔ وہ مسلمان جو اپنے گناہوں کی سزا بھگتنے کے لیے مختلف مدت تک جہنم میں داخل کیے جائیں گے اور پھر آپ کی شفاعت سے باہر آئیں گے، دارومدار اعمال پر ہوگا، ایمان والے ہی جنت میں جائیں گے، یہاں تک کہ رائی کے دانے کے برابر ایمان والے بھی جہنم سے باہر آجائیں گے۔۔ کرنے والے کام جن سے جنت میں داخلہ مل سکے گا: (۱) قرآن کی کثرت سے تلاوت کرنا، روزِ قیامت قرآن اپنے پڑھنے والے کا سفارشی بن کر آئے گا۔ (۲) سورۂ بقرہ اور آل عمران کی تلاوت، رسول اللہ نے فرمایا ’’یہ دونوں سورتیں جنت میں جانے کے لیے اللہ تعالیٰ سے جھگڑا کریں گی۔ (مسلم: ۸۰۴) (۳) سورۃ ملک معافی تک سفارش کرے گی۔ (۴) زیادہ سے زیادہ نوافل ادا کریں۔ (۵) تہجد کی نماز افضل ہے۔ (۶) صبح و شام دس، دس مرتبہ مسنون درود بھیجے گا میری شفاعت نصیب ہوگی۔ (۷) اذان کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دعا مانگنا۔ ایک روایت میں ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ سے تین مرتبہ روزانہ جنت کا سوال کرے گا اُس کے لیے جنت سفارش کرتی ہے۔ اور جو تین مرتبہ روزانہ جہنم سے پناہ مانگتا ہے۔ جہنم اس کے لیے سفارش کرتی ہے۔ (شرح السنۃ: ۱۳۶۵) وَ جَاهِدُوْا فِيْ سَبِيْلِهٖ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ: جو اللہ کے بتائے ہوئے مقاصد کے لیے کام کرے گا وہ جہاد فی سبیل اللہ کرتا ہے اللہ کے کلمہ کو بلند کرنا، جان سے، مال سے، علم کے حصول کے لیے نکلنا، دین کے قیام اور اللہ کی رضا کے لیے کام کرنا، حجاب کرنا جہاد ہے۔ (نتائج مل کر حاصل ہوتے ہیں آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک)