مِنْ أَجْلِ ذَٰلِكَ كَتَبْنَا عَلَىٰ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنَّهُ مَن قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا ۚ وَلَقَدْ جَاءَتْهُمْ رُسُلُنَا بِالْبَيِّنَاتِ ثُمَّ إِنَّ كَثِيرًا مِّنْهُم بَعْدَ ذَٰلِكَ فِي الْأَرْضِ لَمُسْرِفُونَ
اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل کے بارے میں یہ حکم جاری کردیا کہ جو شخص کسی آدمی (45) کو بغیر کسی مقتول کے بدلے، یا زمین میں فساد پھیلانے کے قتل کر ڈالے گا تو گویا اس نے تمام لوگوں کو قتل کر ڈالا، اور جو شخص کسی آدمی کو بچا لے گا تو گویا اس نے تمام لوگوں کو بچا لیا، اور ہمارے بہت سے انبیاء و رسل بنی اسرائیل کے پاس کھلی نشانیاں (46) لے کر آئے، لیکن اس کے بعد بھی ان میں سے بہت سے زمین میں حد سے تجاوز کرنے والے ہی رہے
اس قتل ناحق کے بعد اللہ تعالیٰ نے انسانی جان کی قدر و قیمت کو واضح کرنے کے لیے بنی اسرائیل پر یہ حکم نازل فرمایا اور سمجھایا کہ اللہ کے ہاں انسانی جان کی کتنی اہمیت و تکریم ہے۔ شریعت نے قتل صرف تین صورتوں جائز قراردیا ہے۔ (۱) قتل کے بدلے قتل یعنی قصاص۔ (۲) شادی شدہ مرد یا عورت زنا کرے تو حد قائم ہونے کی صورت میں انھیں رجم کرکے مار ڈالنا۔ (۳) ارتداد کے جرم میں قتل کرنا۔ یہ اصول صرف بنی اسرائیل کے لیے ہی نہیں بلکہ اسلامی تعلیمات کے مطابق بھی یہ اصول ہمیشہ کے لیے ہے۔ سلمان بن ربعی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت حسن بصری سے پوچھا یہ آیت ہمارے لیے بھی ہے جس طرح بنو اسرائیل کے لیے تھی۔ انھوں نے فرمایا ہاں قسم ہے اس ذات کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں بنو اسرائیل کے خون اللہ کے ہاں ہمارے خونوں سے زیادہ قابل احترام نہیں تھے۔ (ابن کثیر: ۲/۱۰۷) سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جو شخص بھی مظلوم قتل ہوتا ہے تو اس کے خون کا گناہ آدم کے پہلے بیٹے پر بھی لاد دیا جاتا ہے کیونکہ وہی پہلا شخص ہے جس نے قتل کو جاری کیا۔ (بخاری: ۳۳۳۵) روشن نشانیوں کے باوجود: بنی اسرائیل نبیوں کو نا حق قتل کرتے رہے اور ان کا رویہ ہمیشہ حد سے تجاوز کرنے والا ہی رہا۔ اس سے گویا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی جارہی ہے کہ یہ آپ کو قتل کرنے اور نقصان پہنچانے کی جو سازشیں کرتے رہتے ہیں یہ کوئی نئی بات نہیں ان کی ساری تاریخ ہی مکر و فساد سے بھری ہوئی ہے۔ آپ اللہ پر بھروسہ رکھیں جو تمام تدبیروں سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے۔