فَبِمَا نَقْضِهِم مِّيثَاقَهُمْ لَعَنَّاهُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوبَهُمْ قَاسِيَةً ۖ يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَن مَّوَاضِعِهِ ۙ وَنَسُوا حَظًّا مِّمَّا ذُكِّرُوا بِهِ ۚ وَلَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلَىٰ خَائِنَةٍ مِّنْهُمْ إِلَّا قَلِيلًا مِّنْهُمْ ۖ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاصْفَحْ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ
پھر جب انہوں نے بد عہدی (34) کی تو ہم نے ان پر لعنت بھیج دی، اور ان کے دلوں کو سخت بنا دیا، چنانچہ وہ (اللہ کے) کلام میں لفظی (اور معنوی) تحریف پیدا کرنے لگے، اور جن باتوں کی انہیں نصیحت کی گئی تھی ان کا ایک بڑا حصہ فراموش کر بیٹھے، اور ان میں سے چند کے علاوہ آپ کو ہمیشہ ہی ان کی کسی نہ کسی خیانت کی اطلاع ہوتی رہے گی، پس آپ انہیں معاف کردیجئے، اور درگذر کردیجئے، بے شک اللہ احسان اور بھلائی کرنے والوں کو محبوب رکھتا ہے
(۱) بنی اسرائیل نے اپنے مضبوط عہد کی چنداں پرواہ نہ کی۔ قیام صلوٰۃ اور ادائے زکوٰۃ میں غفلت برتی زکوٰۃ کی بجائے بُخل اور قرضہ حسنہ کی بجائے سود خوری اور حرام خوری شروع کردی۔ رسولوں پر ایمان لانا تو درکنار الٹا انھیں نا حق قتل بھی کرتے رہے۔ ان کی انہی جسارتوں پر اللہ نے ان پر لعنت کی اور اپنی رحمت سے دور کردیا۔ (۲) دوسری سزا یہ دی کہ ان کے دل سخت بنادیے جسکی وجہ سے ایک تو راہ حق قبول کرنے سے قاصر ہوگئے دوسرے آپس میں اُلفت و محبت کی بجائے خود غرضی، سنگدلی اور باہمی منافرت کی راہ اختیار کرلی۔ (۳) کتاب اللہ میں تحریف اپنی فلسفیانہ موشگافیوں اور خود غرضا نہ تاویلات کے ذریعہ اکثر آیات کا مفہوم ہی بدل ڈالا۔ نصیحت و عبرت حاصل کرنے کی بجائے اپنا سارا زور الفاظ کی گتھیوں کو سلجھانے میں صرف کرنے لگے ۔ (۴) تھوڑے سے لوگ یہودی سے مسلمان ہوگئے تھے یہ عبداللہ بن سلام اور انکے چند ساتھی تھے۔ (۵) عفو درگزر کا حکم: یہ حکم اس وقت دیا گیا جب لڑنے کی اجازت نہیں تھی۔اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا آپ انکی ہر قابل گرفت بات پر دل گرفتہ نہ ہوں۔ ان کا محاسبہ نہ کیجئے، اللہ خود ان سے نمٹ لے گا آپ درگزر اور احسان کی راہ اختیار کیجئے کیونکہ یہی راہ اللہ کو پسند ہے۔