يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلَالَةِ ۚ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ لَيْسَ لَهُ وَلَدٌ وَلَهُ أُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَ ۚ وَهُوَ يَرِثُهَا إِن لَّمْ يَكُن لَّهَا وَلَدٌ ۚ فَإِن كَانَتَا اثْنَتَيْنِ فَلَهُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَكَ ۚ وَإِن كَانُوا إِخْوَةً رِّجَالًا وَنِسَاءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ ۗ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ أَن تَضِلُّوا ۗ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ
لوگ آپ سے فتوی پوچھتے ہیں، آپ کہہ دیجئے ” کلالہ“ (161) کے بارے میں اللہ تمہیں فتویٰ دیتا ہ، اگر کوئی آدمی مرجائے جس کی کوئی اولاد نہ ہو، اور اس کی ایک بہن ہو، تو اسے نصف ترکہ ملے گا، اور اگر بہن مرجائے اور اس کی کوئی اولاد نہ ہو، تو وہ بھائی اس کا وارث ہوگا، اگر بہنیں دو ہوں گی تو ان دونوں کو مال کا دو تہائی ملے گا، اگر کئی بھائی بہن ہوں گے تو ہر مرد کو دو عورتوں کے برابر ملے گا، (یہ حکم) اللہ ت عالیٰ تمہارے لیے بیان کردے رہا ہے تاکہ تم گمراہ نہ ہوجاؤ، اور اللہ ہر چیز کو جاننے والا ہے
سیدنا براء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں سب سے آخر میں نازل ہونے والی سورت ’’سورۂ براء ت‘‘ ہے اور سب سے آخر میں نازل ہونے والی آیت ’’ يَسْتَفْتُوْنَكَ۠ قُلِ اللّٰهُ يُفْتِيْكُمْ فِي الْكَلٰلَةِ ‘‘ ہے۔ (بخاری: ۴۶۰۵، مسلم: ۱۱/ ۱۶۱۸) کلالہ کی میراث کی تقسیم: اولاد تین قسم کی ہوتی ہے (۱) سگے بہن بھائی جن کے ماں باپ ایک ہوں۔ (۲) سوتیلے جن کا باپ تو ایک ہو اور مائیں الگ الگ ہوں، (۳) ماں جائے جن کی ماں ایک ہو اور باپ الگ الگ ہوں۔ سورۂ نساء ہی کی آیت نمبر ۱۲ میں کلالہ کی میراث کے جو احکام بیان ہوئے تھے۔ وہ ماں، بہن بھائیوں سے تعلق رکھتے ہیں اس بات کا خیال رکھا جائے کہ اگر کلالہ کے حقیقی بہن بھائی بھی ہوں اور سوتیلے بھی، ایسی صورت میں سوتیلے بہن بھائی میراث سے محروم رہیں گے، اور اگر حقیقی نہ ہو تو پھر میراث سوتیلوں میں تقسیم ہوگی۔ اگر ایک بہن بھائی ہو تو آدھا حصہ ملے گا دو یا دو سے زیادہ بہنیں ہوں تو ان کو دو تہائی ملے گا۔ اور اگر صرف بھائی ہو تو وہ سارے ترکہ کا مالک ہوگا۔ اور اگر بہن بھائی ملے جلے ہوں تو ان میں سے ہر مرد کو دو حصے اور عورت کو ایک حصہ ملے گا۔ سوال :اگر کلالہ عورت کا مردنہ ہو یا کلالہ مرد کی عورت نہ ہو اور اس کی صرف ایک بہن ہو تو آدھا حصہ تو اس کو مل گیا باقی حصہ کسے ملے گا؟ سوال:اُدھار کے طور پر بہن کو بھی دیا جاسکتا ہے اور دوسرے دور کے رشتہ داروں میں مثلاً ماموں، پھوپھی وغیرہ یا ان کی اولاد موجود ہو تو انھیں ملے گا۔ اور اگر وہ بھی نہ ہوں تو بقایا آدھا حصہ بیت المال میں جمع کرایا جاسکتا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو کلالہ کی میراث کی تقسیم کے بعض پہلوؤں میں جو پریشانی ہوتی تھی اس کا حل اللہ تعالیٰ نے بتا دیا ہے ۔ لہٰذا اب تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب کوئی مسئلہ پوچھتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم از خود اس کا جواب دینے کی بجائے وحی الٰہی کا انتظار کرتے رہتے تھے۔