فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَيُوَفِّيهِمْ أُجُورَهُمْ وَيَزِيدُهُم مِّن فَضْلِهِ ۖ وَأَمَّا الَّذِينَ اسْتَنكَفُوا وَاسْتَكْبَرُوا فَيُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا وَلَا يَجِدُونَ لَهُم مِّن دُونِ اللَّهِ وَلِيًّا وَلَا نَصِيرًا
پس جو لوگ (159) ایمان لائے اور انہوں نے عمل صالح کیا، اللہ انہیں ان کا پورا پورا اجر دے گا، اور اپنے فضل سے انہیں زیادہ دے گا، اور جن لوگوں نے (اس کی عبادت کا) انکار کیا اور تکبر کیا، اللہ انہیں دردناک عذاب دے گا، اور وہ اپنے لیے اللہ کے علاوہ کوئی دوست اور مددگار نہ پائیں گے
تکبر اور بڑائی صرف اللہ تعالیٰ کو لائق ہے۔ مخلوق میں سے جو کوئی بھی اللہ کے سامنے اکڑے گا تو یقیناً دوزخ میں جائے گا ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اِنَّ الَّذِيْنَ يَسْتَكْبِرُوْنَ۠ عَنْ عِبَادَتِيْ سَيَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِيْنَ﴾ (المومن: ۶۰) بیشک جو لوگ میری عبادت سے انکار وتکبر کرتے ہیں، یقیناً وہ ذلیل و خوار ہوکر جہنم میں داخل ہونگے۔ رسول اللہ نے فرمایا: ’’پروردگار کے سامنے دوزخ و جنت کا جھگڑا ہوا جنت نے کہا ’’پروردگار! میرا تو یہ حال ہے کہ مجھ میں وہی لوگ آرہے ہیں جو دنیا میں ناتواں اور حقیر تھے۔‘‘ اور دوزخ کہنے لگی کہ مجھ میں وہ لوگ آرہے ہیں جو متکبر تھے۔ اللہ نے جنت سے فرمایا تو میری رحمت ہے اور دوزخ سے فرمایا تو میرا عذاب ہے۔ (بخاری: ۷۴۴۹) تکبر کیا ہے: انسانی زندگی کا پہلا رویہ تکبر تھا، فرشتوں نے اللہ کا حکم مان لیا۔ ابلیس نے تکبر کیا اور انکار کردیا، بڑائی تو صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے ۔ رسول اللہ اپنے کپڑوں میں پیوند لگا لیتے تھے، گھر کا کام کاج کرلیتے تھے، دعا کرتے تھے کہ اے اللہ مجھے مسکینوں کے ساتھ رکھنا۔ انسان کی تعریف اُسے آپے میں نہیں رہنے دیتی۔ رسول اللہ نے فرمایا: ’’کسی کے سامنے اس کی تعریف کردینا گویا اس کے منہ میں خاک بھر دینا ہے۔‘‘ (بخاری: ۱۳۰۵) حضرت سلیمان کی دعا: اے میرے رب مجھے قابو میں رکھ کہ میں ان نعمتوں پر آپ کا شکر ادا کروں جو مجھے عطا کیں اور جو میرے والدین کو عطا کیں اور میں ایسا کام کروں جو آپ کو پسند آجائے۔ حضرت عیسیٰ نے اللہ کا بندہ ہونے میں عار نہیں سمجھا پھر انسان کیوں سمجھے۔ انسان اگر عاجزی اختیار کرنا چاہتا ہے تو اُسے مردوں کو نہلانا چاہیے، بیمار کی عیادت کرنا، سلام کرنا، مساکین کو کھانا کھلانا، جنازوں کے ساتھ چلنے سے تعزیت کرنے سے انسان کا تکبر ٹوٹتا ہے۔ اللہ چاہتا ہے کہ انسان اپنے شعور کی اصلاح کرے، اور اللہ کی حاکمیت انسان کے ذہن میں جم جائے، اللہ کا قرب اللہ کے احکام کی تعمیل اور نیک کاموں سے ملتا ہے۔ ایمان و عمل صالح سے آخرت میں اجر ملے گا فضل سے زیادہ اور دنیا میں بھی ملے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: لذتوں کو توڑنے والی موت کو یاد رکھو۔ تو رو بہت زیادہ اور ہنسو کم۔ (ترمذی: ۲۳۰۷، ابن ماجہ: ۴۲۵۸)